بنگلہ دیش میں ایک اور لادین بلاگر کا قتل
7 اپریل 2016ڈھاکا پولیس کے مطابق اٹھائیس سالہ نظام الدین صمد پر خنجر بردار افراد نے اس وقت حملہ کیا، جب وہ یونیورسٹی سے گھر واپس آ رہے تھے۔ یہ واقعہ بدھ کو رات دیر گئے پیش آیا۔ نظام الدین قانون میں پوسٹ گریجویٹ کر رہے تھے۔ ایک تفتیشی اہلکار نے بتایا کہ اندازہ ہے کہ حملہ آوروں کی تعداد تین سے چار تھی’’ ان افراد نے پہلے خنجر سے وار کیے اور جیسے ہی نظام الدین پر زمین پر گرے تو انہیں گولی مار دی گئی۔‘‘ عینی شاہدین نے بتایا کہ حملہ آور اس دوران ’ اللہ اکبر‘ کے نعرے بلند کر رہے تھے۔
گزشتہ برس مشتبہ مسلم انتہا پسندوں نے بنگلہ دیش میں ایسے پانچ افراد کو قتل کیا تھا، جو خود کو لادین کہتے تھے۔ ان میں ادیب کے علاوہ ایک ناشر اور ایک سماجی کارکن بھی شامل تھا۔کالعدم انصار اللہ بنگلہ ٹیم نامی تنظیم نے ان میں سے کچھ واقعات کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
بنگلہ دیش آن لائن گروپ ’بی او اے این‘ سے منسلک عمران ایچ سرکار کے مطابق نظام الدین صمد بے باک انداز میں نا انصافی اور شدت پسندی پر تنقید کرتا رہتا تھا۔ ’’وہ نا انصافی کے خلاف ایک با اثر آواز تھی اور سیکیولرزم کا ایک بڑا حامی تھا۔‘‘ بنگلہ دیش میں گزشتہ برسوں کے دوران شدت پسندی میں کافی زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ آزاد خیال اور سیکیولر افراد کے علاوہ مساجد اور مندروں پر بھی حملے ہوئے ہیں۔
بنگلہ دیش میں ایک ہندو پنڈت، ایک جاپانی شہری، ایک پولیس افسر اور ایک اطالوی امدادی کارکن کے قتل کی ذمہ داری اسلامک اسٹیٹ کی مقامی شاخ قبول کر چکی ہے۔ تاہم ڈھاکا حکومت ملک میں آئی ایس کی موجودگی سے انکار کرتی ہے۔
نظام الدین صمد کے ساتھ پڑھنے والے ہزاروں طلبہ نے اس واقعے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے حکومت سے قاتلوں کو فی الفور گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔