پانچ اگست کے دن ڈھاکہ میں جو ہوا ہے، وہ ایک ایسے مایوس ہجوم کا احتجاج قرار دیا جا سکتا ہے، جس کے پاس معاشی ترقی، دہائیوں پرانے مسائل، ناانصافیوں اور غربت کے خاتمے کا کوئی حل موجود نہیں۔
قصور احتجاج یا سول نافرمانی کرنے والے عوام ، نوجوانوں یا طلبہ کا نہیں ہے۔ ان مایوس نوجوانوں کے پاس کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں چھوڑا گیا۔ ان کو اس نہج پر اسی اشرافیہ نے پہنچایا ہے، جو عشروں سے کسی نہ کسی طرح اقتدار میں ہے۔ بنگلہ دیش یا پاکستان جیسے ممالک کی نوجوان نسل جب اپنا موازنہ ترقی یافتہ اقوام سے کرتی ہے تو انہیں معاشی لحاظ سے پیچھے رہ جانے کا دکھ اندر ہی اندر کھا جاتا ہے۔
دوسری طرف ہمارے روایتی حکمران ہیں، جنہیں بس اپنے خاندانوں، امرا اور اشرافیہ کی فکر ہے۔ رہی طاقتور فوج تو اس کو اپنی طاقت اور پیٹ کی فکر ہے۔
روایتی سیاسی خاندان سالہا سال سے اقتدار میں ہیں اور کسی دوسرے کے لیے جگہ یا نئی نسل کو اسپیس فراہم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ پاکستان ہو یا بنگلہ دیش، غریب اور متوسط طبقے کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کے لیے پارلیمان کے دروازے بند کر دیے گئے ہیں، ان کی آواز اشرافیہ کے کانوں تک نہیں پہنچ رہی اور وہ موجودہ نظام سے تنگ آ چکے ہیں۔
نوجوان تنگ آ جائیں تو نتیجہ ایسا ہی نکلتا ہے، جیسا بنگلہ دیش میں نکلا ہے۔
نوجوان مایوس ہیں اور تبدیلی چاہتے ہیں۔ لیکن جس طرح آج کے پریشان کن معاشی حالات عشروں کا نتیجہ ہے، اسی طرح ترقی بھی عشروں کا نتیجہ ہوتی ہے۔ یہ راتوں رات نہیں آتی، نوکریاں دو سال میں پیدا نہیں ہوتیں، ملکوں کے حالات دو چار برس میں ٹھیک نہیں ہوتے۔
جب شیخ مجیب الرحمان کے مجمسے گرائے جا رہے تھے، تو مجھے عراق میں صدام حسین کے گرائے جانے والے مجمسے یاد آ گئے۔ نوجوانوں کے ہاتھوں میں وزیر اعظم ہاؤس کے پرندے اور دیگر اشیا دیکھیں تو پاکستان کا نو مئی یاد آ گیا۔
جب عوام کو مٹھائی بانٹتے دیکھا تو لیبیا میں قذافی کے مرنے کے بعد والے حالات ذہن کے دریچوں سے گزرے۔ بنگلہ دیش کے نوجوانوں کے آنکھوں میں وہی اُمید تھی، جو قاہرہ میں حسنی مبارک کے اقتدار سے جانے کے بعد نظر آئی تھی۔ جب صدام گیا تھا، جب قذافی قتل ہوا تھا، جب تیونس، شام اور سوڈان میں مظاہرے ہوئے تھے تو وہاں کے نوجوانوں کے ذہن میں بھی یہی تھا کہ اگلے ہفتے حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔
پاکستان میں بھی، جب جب ''میرے عزیز ہم وطنو!‘‘ کی آواز آئی تو حالات سے مایوس طبقے کی آنکھوں میں ایسی ہی روشنی تھی، جو آپ کو بنگلہ دیشی نوجوانوں کی آنکھوں میں نظر آ رہی ہے۔ حکمرانوں اور اشرافیہ کو اپنے نوجوانوں اور عوام کے دکھ درد دکھائی نہیں دے رہے اور نوجوانوں کو لگتا ہے کہ کل سے تبدیلی آ جائے گی۔
لیکن ان تمام ممالک میں چہرے تو بدلے لیکن فرسودہ عدالتی، سیاسی اور فوجی نظام اپنی جگہ کھڑا رہا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ تبدیلی کے خواہش مند نوجوانوں کی آواز پھر نہ سُنی گئی اور حالات مزید خراب ہوتے گئے۔ آج پاکستان، عراق، لیبیا، سوڈان، تیونس اور شام آپ کے سامنے ہیں۔
معاشروں میں تبدیلی اقتدار کی پر امن منتقلی، جمہوری روایات، انصاف، میرٹ، مساوات، ایمانداری اور تعلیم سے آتی ہے، راتوں رات حکومتیں بنانے اور گرانے سے نہیں آتی۔
میری نظر میں بنگلہ دیش کے اصل مسائل کا آغاز اب ہو رہا ہے۔ سمت کا تعین ہونے میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔ کاش پاکستان اور بنگلہ دیش جیسے ممالک کے حکمران دور اندیش ہوتے تو ایسی نوبت ہی نہ آتی، افراتفری پیدا ہی نہ ہوتی، عوام کو خود حکمرانوں کا گریبان نہ پکڑنا پڑتا لیکن ہمارے حکمران تو مرتے دم تک اقتدار میں رہنا چاہتے ہیں۔
اگر بنگلہ دیش کامیاب ہوا تو یہ پورے خطے کے لیے مثال ہو گا ورنہ پاکستان کی طرح ہر دو سال بعد نیا تجربہ کرنے جیسا دائروں کا سفر تو شروع ہو ہی چکا ہے۔ تشدد پر مبنی دائروں کے ایسے سفر میں نہ مسیحا ملتا ہے اور نہ ہی کسی نسل کا زخم بھرتا ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔