بنگلہ دیش:کیاخالدہ ضیاء کی رہائی سیاسی استحکام کا باعث ہو گی؟
11 ستمبر 2008خالدہ ضیاء پران کے دونوں حکومتی ادوار میں، جو انیس سو اکیانوے سے چھیانوے اور دو ہزار ایک سے دو ہزار چھ تک جاری رہے تھے، بڑے پیمانے پر بدعنوانی کے الزامات عائد کئے جاتے ہیں۔ اسی بناء پر ملکی فوج نے پچھلے سال ستمبر میں انکی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی حکومت کوبرطرف کرکے خالدہ ضیاء کو قید کردیا تھا۔
ڈھاکہ میں منتخب ملکی حکومت کو برطرف کرنے کے بعد فوج نے بنگلہ دیش میں ایمرجنسی لگادی تھی اور جنوری دو ہزار سات کیلئے مجوزہ عام انتخابات دسمبردو ہزار آٹھ تک ملتوی کردئے گئے تھے۔ عبوری حکومت نے ملک بھر سے بدعنوانی کو ختم کرنے کے پروگرام کے تحت،دو نوں بڑی جماعتوں بنگلہ دیش نیشنلسٹ اور عوامی لیگ کےدرجنوں رہنماوں اور خالدہ ضیاء کے بیٹے سمیت متعدد سابق وزراء کوبھی گرفتارکر لیا تھا۔
حکومت پر فوجی قبضہ کی ایک اور وجہ، عوامی لیگ کی جانب سے اس وقت برسراقتدار بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی پر انتخابی دھاندلیوں کے الزامات بھی تھے۔ ان الزامات کے پس منظر میں سال دو ہزار چھ کے آخر میں بنگلہ دیش کے گلی کوچوں میں پر تشدد مظاہرے اور ہڑتالیں بھی شروع ہوگئی تھیں۔
خالدہ ضیاء کی ضمانت پر رہائی اس وقت عمل میں آئی ہے جب ان کی ممکنہ رہائی کے خلاف ایک حکومتی اپیل سپریم کورٹ میں ابھی تک زیر سماعت ہے۔
بی این پی کی حریف جماعت عوامی لیگ کی سربراہ حسینہ واجد ان دنوں علاج کیلئے امریکہ میں ہیں۔ اب یہ بھی کہا جارہا ہےکہ جمعرات کی سہ پہر رہائی پانے والی تریسٹھ سالہ خالدہ ضیاء کو بھی علاج کے غرض سے بیرون ملک چلے جاناچاہیے، کم از کم عبوری حکومت کی خواہش یہی ہے۔
بنگہ دیش میں پندرہ سال تک لیکن باری باری بی این پی یا عوامی لیگ کی حکومت رہی ہے۔ سیاسی مبصرین کے بقول اب فوج کی حمایت والی عبوری انتظامیہ ان دونوں جماعتوں کی قیادت کو اگلے انتخابات کے موقع پر ملک کے اندر نہیں بلکہ بیرون ملک دیکھنا چاہتی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ خالدہ ضیاء اور شیخ حسینہ کو قید میں رکھتے ہوئے ، فوج کیلئے غیر جانبدارانہ انتخابات کے انعقاد کے دعوے ممکن نہیں اور انکی بنگلہ دیش میں موجودگی ، فوج کے خیال میں نئے سرے سے بدعنوانی کا سبب بنے گی۔