بنگلہ دیشی عوام کا ہیرو، مشکلات میں گِھرا ہوا
4 مارچ 2011ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی حکومت نے نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر محمد یونس کے خلاف ایک مہم شروع کر رکھی ہے۔ ستر سالہ ڈاکٹر یونس کا جرم صرف اتنا ہی معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے حسینہ واجد کی سیاسی پارٹی عوامی لیگ کے مقابلے میں ایک سیاسی پارٹی قائم کرنے کا سوچا۔
ڈاکٹر یونس کی مشکلات کا آغاز اس وقت ہوا، جب ناروے میں بنائی گئی ایک دستاویزی فلم میں الزام عائد کیا گیا کہ ڈاکٹر یونس اور ان کا گرامین بینک بد عنوانی کا مرتکب ہوا ہے۔ ڈاکٹر یونس نے اس الزام کی تردید کی اور بعد ازاں ناروے حکومت کی طرف سے کرائی گئی تفتیش نے بھی ان الزامات کو جھوٹا ثابت کر دیا۔
تاہم دوسری طرف ڈھاکہ حکومت نے ان خبروں کے بعد ڈاکٹر یونس کے خلاف اپنی سطح پر تحقیقات کا آغاز کر دیا، جو ابھی تک جاری ہیں۔ اسی دوران شیخ حسینہ نے ڈاکٹر یونس کو ’غریبوں کا خون چوسنے والا‘ قرار دیا تو دوسری طرف ملکی میڈیا نے بھی ان کے خلاف ایک پراپیگنڈا شروع کر دیا۔ اس دوران ملکی وزیر خزانہ نے مطالبہ کیا کہ ڈاکٹر یونس کو اُس بینک کے مینجنگ ڈائریکٹر کے عہدے سے فارغ کر دیا جائے، جو انہوں نے قریب تیس سال قبل خود ہی قائم کیا تھا۔
بالآخر بدھ کو ڈاکٹر محمد یونس کو ان کے عہدے سے ہٹا ہی دیا گیا لیکن یونس نے اس فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان کر دیا ۔ ڈاکٹر یونس کو اپنے کیریئر میں کئی تنازعات کا سامنا رہا ہے۔ بنگلہ دیش کے کئی حلقوں کے علاوہ ہمسایہ ملک بھارت میں بھی کہا جاتا ہے کہ گرامین بینک جو چھوٹے قرضے دیتا ہے، اس پر بڑے پیمانے پر سود عائد کر کے غریبوں سے منافع کماتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق گرامین بینک بنگلہ دیش کے غریب عوام کو 10.2 بلین سے زائد کا قرضہ مہیا کر چکا ہے، جس کی بدولت غریب لوگوں بد حال زندگی میں تھوڑی بہت خوشحالی تو ضرور دیکھی گئی ہے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: شادی خان سیف