بنگلہ دیشی کابینہ کے دو وزراء کو توہین عدالت کے جرم میں سزا
27 مارچ 2016ملکی دارالحکومت ڈھاکا سے اتوار ستائیس مارچ کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق بنگلہ دیشی سپریم کورٹ نے جن وزراء کو سزا سنائی ہے، ان میں سے ایک وزیر خوراک قمرالاسلام ہیں اور دوسرے بنگلہ دیش کی ریاستی آزادی سے متعلقہ امور کے وزیر اے کے ایم مزمل حق ہیں۔
ان دونوں وزراء نے اسی مہینے کے دوران ملکی چیف جسٹس ایس کے سنہا کے بارے میں عوامی سطح پر تنقیدی بیانات دیے تھے۔ ان کو فی کس 50 ہزار ٹکہ یا 625 امریکی ڈالر کے برابر جرمانے کی سزا سنائی گئی ہے۔ جرمانے کی عدم ادائیگی کی صورت میں ان میں سے ہر ایک کو سات سات دن قید کی سزا کاٹنا ہو گی۔
اے ایف پی نے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ قمرالاسلام اور مزمل حق نے اپنے بیانات میں مطالبہ کیا تھا کہ چیف جسٹس سنہا کو ایک ایسی عدالتی اپیل کی سماعت سے علیحدہ ہو جانا چاہیے، جو ملک کے ایک ایسے سرکردہ اسلام پسند سیاسی رہنما نے دائر کی تھی، جسے عدالت نے جنگی جرائم کے جرم میں سزائے موت کا حکم سنایا تھا۔
بنگالی نیوز ویب سائٹ ’پروتھوم آلو‘ Prothom Alo نے آج اپنی ایک رپورٹ میں لکھا کہ ان وزراء کے خلاف اپنا فیصلہ سنائے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ دونوں وزراء نے اس بارے میں جو بنایات دیے تھے، وہ غیر جانبدار عدلیہ کی کارکردگی میں مداخلت کے مترادف تھے۔
اے ایف پی کے مطابق قمرالاسلام کے وکیل عبدالباسط ماجمدار نے ڈھاکا میں صحافیوں کو بتایا، ’’انہوں (دونوں وزراء) نے غیر مشروط طور پر معافی مانگی تھی لیکن عدالت نے ان کی معذرت کو مسترد کر دیا اور ان میں سے ہر ایک کو پچاس پچاس ہزار ٹکہ جرمانے کا حکم سنایا۔‘‘
اس فیصلے سے قبل عدالت نے دونوں ملزمان سے کہا تھا کہ وہ اپنے ان ’انتہائی توہین آمیز تبصروں‘ کی وضاحت کریں، جن کی وجہ سے ’سپریم کورٹ کی عزت اور حرمت اور چیف جسٹس کے عہدے کا وقار متاثر‘ ہوئے ہیں۔
بنگلہ دیش کو مسلم سے لادین ریاست بنانے کے مطالبے کی مخالفت
پاکستان نے بنگلہ دیشی سفارت کار کو بے دخل کر دیا
اسی دوران بنگلہ دیشی اٹارنی جنرل محبوب عالم نے کہا ہے کہ اب وزیر اعظم شیخ حسینہ کی قیادت میں ملکی کابینہ کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ آیا ان دونوں وزیروں کو ان کے سزا یافتہ ہونے کے بعد بھی حکومت کا حصہ رہنا چاہیے۔
ان دو وزراء نے جس عدالتی اپیل کے حوالے سے چیف جسٹس کے بارے میں ریمارکس دیے تھے، اس اپیل کی سماعت کے بعد عدالت نے حال ہی میں اپنے فیصلے میں متعلقہ اسلام پسند رہنما کو سنائی گئی موت کی سزا برقرار رکھی تھی۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ ملکی کابینہ کے ارکان قمرالاسلام اور مزمل حق نے چیف جسٹس کے بارے میں جو بیانات دیے تھے، ان کا مقصد سپریم کورٹ کی طرف سے سرکردہ اسلام پسند رہنما کو سنائی گئی سزائے موت کے خلاف اسی مجرم کی دائر کردہ اپیل کی سماعت سے قبل عدالت پر دباؤ ڈالنا تھا۔