بھارت ایک غیر متحرک معاشی طاقت !
24 جولائی 2011ماہرین کے مطابق امریکہ کی خواہش ہے کہ بھارت خطے میں چین کے مقابلے کی پوزیشن پر آسکے۔ اس کے برعکس نئی دہلی کی خارجہ پالیسی میں اب بھی دہائیوں سے جاری وہی مزاج پایا جاتا ہے جہاں اسٹریٹیجک عزائم کے مقابلے میں سفارتی احتیاط کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔
امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے حالیہ دورہء بھارت کے موقع پر واضح الفاظ میں کہا تھا کہ اب وقت ہے کہ بھارت اپنی اقتصادی اور سیاسی طاقت کے حصار کو وسعت دے کر ایشیا اور اس سے بھی آگے مستقبل کی تعمیر کرے۔ کلنٹن کا کہنا تھا، ’’ یہ وقت قیادت کرنے کا ہے۔‘‘ واضح رہے کہ بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کے لیے انتہائی سرگرمی سے کوششیں کر رہا ہے۔
کہا جارہا ہے کہ 1947ء میں برطانوی راج سے آزادی کے بعد سے اب تک جنوبی ایشیا کی اس ریاست نے سفارتی، اقتصادی اور دفاعی محاذوں پر خاصی پیشرفت کی ہے مگر اس کا زیادہ تر دھیان قریبی پڑوسیوں تک ہی محدود رہا ہے۔ امریکہ کے لیے بھارت کے سابق سفیر للت من سنگھ کے بقول 1991ء کی اقتصادی اصلاحات اور 1998ء کے جوہری دھماکوں نے عالمی سطح پر بھارت کا مقام بدل کر رکھ دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس کے اعتراف میں اب بھارتی قیادت کوکھل کر بات کرنی چاہیے۔ سابق سفیر عرب دنیا میں جمہوریت کی حامی حالیہ تحریکوں کے لیے سست ردعمل ظاہر کرنے پر بھی بھارتی حکمرانوں کو قصور وار ٹہراتے ہیں: ’’میرے خیال میں بھارت کو چاہیے تھا کہ عرب تحریکوں کو زیادہ خوش آئند قرار دیتا، آمریت کے خلاف جنگ ہماری جمہوری روایات کے مطابق ہے، مگر ہم نے انتظار کرنے اور دیکھنے کو ترجیح دی، یہ بھارتی طریقہ ہے۔‘‘
بین الاقوامی سیاسی امور کے حوالے سے معتبر فارن پالیسی میگزین کے تازہ شمارے میں نئی دہلی کے سینٹر فار پالیسی ریسرچ کے راجہ موہن کا مؤقف بھی خاصا دلچسپ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بھارت عالمی امور میں اپنی آواز بلند ضرور کرے گا مگر اپنی ہی رفتار اور شرائط کے تحت: ’’ امریکہ دیکھنا چاہتا ہے کہ کیا عالمگیر معاملات میں بھارت ذمہ داری لے سکتا ہے؟ بھارت عالمی سطح پر فیصلہ سازی میں زیادہ سرگرم ہونے کو تیار ہے مگر ذاتی مفاد کی بنیاد پر، کسی کی آزمائش کے لیے نہیں۔‘‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ایک اور سابق بھارتی سفارتکار کے حوالے سے بتایا کہ اُن جیسے بہت سے سفارتکار دوسرے ممالک کے معاملات میں عدم مداخلت کی روایتی پالیسی ہی کو طویل المدتی اثر و رسوخ کے لیے درست ٹہراتے ہیں۔ ایسے ہی ایک سفارتکار کا کہنا ہے، ’’ ضروری نہیں کہ غیر متحرک پالیسی کمزور پالیسی ہو۔‘‘
ماہرین کے خیال میں خام مال کے حصول اور تیار مال کے لیے نئی منڈیوں کی تلاش میں بھارت اب بھی چین سے بہت پیچھے ہے۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: افسر اعوان