ایک وزیر اعلیٰ کا دوسرے وزیر اعلیٰ پر اقدام قتل کا کیس
31 جولائی 2021شمال مغربی بھارت کی دو ریاستوں آسام اور میزورم کے درمیان جاری کشیدگی نے جمعے کے روز ایک نیا موڑ لے لیا۔ میزورم حکومت نے آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنتا بسوا سرما اور ریاست کے چھ دیگر اعلیٰ عہدیداروں کے خلاف اقدام قتل اور باقاعدہ حملہ کرنے کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرا دیا۔
آسام کے وزیر اعلیٰ کے خلاف اقدام قتل کا کیس
میزورم پولیس نے آسام کے جن چھ اعلیٰ عہدیداروں کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے، ان میں ریاست کے انسپکٹر جنرل پولیس، ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس، ایک سپرنٹنڈنٹ پولیس اور ایک تھانہ انچارج بھی شامل ہیں۔ ان کے علاوہ دو سو نامعلوم پولیس اہلکاروں کے خلاف بھی کیس درج کیا گیا ہے۔
پیر 26 جولائی کو آسام اور منی پور کے پولیس اہلکاروں کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئی تھیں، جن میں آسام کے کم از کم چھ پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے تھے جبکہ دونوں طرف کے 80 دیگر اہلکار زخمی بھی ہوئے تھے، جن میں کئی افسران بھی شامل تھے۔ اس واقعے کے بعد دونوں ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ اور عہدیدارو ں نے ایک دوسرے پر تشدد کو ہوا دینے کے الزامات عائد کیے تھے۔
یہ بھی پڑھیں:بھارت: دو ریاستوں کے سرحدی تنازعے میں چھ پولیس اہلکار ہلاک
میزورم کے وزیر اعلیٰ کی طرف سے درج کرائی گئی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ آسام کے پولیس اہلکاروں نے وزیر اعلیٰ ہیمنتا بسوا سرما کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے واقعے کے روز میزورم پولیس کے ساتھ تنازعے کے ”دوستانہ حل" کے لیے بات چیت کرنے سے منع کر دیا تھا۔
میزورم کے اعلیٰ عہدیداروں کے خلاف نوٹس
اس سے قبل جمعے کے روز ہی آسام نے میزورم کے چھ اعلیٰ عہدیداروں کو 26 جولائی کے واقعے سے متعلق وضاحت کے لیے طلب کیا تھا، لیکن ان عہدیداروں نے سرکاری نوٹس قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
آسام پولیس میزورم سے ملکی پارلیمان کے ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا کے رکن کے ونلاوینا کو بھی تلاش کر رہی ہے۔ آسام پولیس انہیں تلاش کرنے کے لیے دہلی پہنچی، لیکن جب ان کا پتہ نہ لگا سکی، تو دہلی میں ریاست کے ریذیڈنٹ کمشنر کو سمن دینے کی کوشش کی جسے انہوں نے وصول کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد آسام کی پولیس اس سمن کی کاپی رکن پارلیمان ونلاوینا کی رہائش گاہ کے باہر چسپاں کر کے لوٹ گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں:بھارت: زیادہ بچے پیدا کرنے پر انعام کا اعلان
آسام پولیس نے بعد میں کہا، ”سمن کی تعمیل کرا دی گئی ہے۔ اب ونلاوینا کو چاہیے کہ وہ تفتیش میں تعاون کریں ورنہ ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے جائیں گے۔‘‘
دونوں ریاستیں آمنے سامنے
بھارت میں یوں تو متعدد ریاستوں کے درمیان پانی اور قدرتی وسائل کی تقسیم سمیت کئی طرح کے تنازعات برسوں سے جاری ہیں۔ اس حوالے سے عدالتوں میں مقدمات بھی چل رہے ہیں اور بعض اوقات ریاستوں کے عوام کے درمیان کشیدگی بھی پیدا ہوتی رہی ہے۔ تاہم یہ غالباً پہلا موقع ہے جب ملک کی دو ریاستوں کی پولیس نہ صرف ایک دوسرے سے متصادم ہو گئی بلکہ وزراء اعلیٰ اپنی اپنی ریاستوں کے عوام کو بھی ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کر رہے ہیں۔ دونوں ریاستوں کے عوام نے اہم شاہراہوں کو بند کر دیا، جس کے بعد ان ریاستوں کا ملک کے دیگر حصوں سے بذریعہ سڑک رابطہ تقریباً منقطع ہو گیا۔
ہیمنتا سرما نے آسام کے عوام کو میزورم نہ جانے کا مشورہ دیا ہے۔ دوسری طرف میزورم کے وزیر اعلیٰ زورم تھنگا نے بھی ریاستی سرحدوں پر سکیورٹی اہلکار بڑی تعداد میں تعینات کر دیے ہیں۔ انہوں نے مرکزی حکومت کی اپیل کے باوجود سکیورٹی فورسز کو ہٹانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ انہیں مرکز کے نیم فوجی دستوں پر اعتماد نہیں کہ وہ سرحدی علاقے میں رہنے والے باشندوں کی حفاظت کر سکیں گے۔
تنازعہ ہے کیا؟
ریاست آسام اور میزورم کے درمیان سرحد ڈیڑھ سو کلو میٹر سے بھی زیادہ طویل ہے تاہم اس سرحد کے بارے میں دونوں کے درمیان ابتدا ہی سے شدید اختلافات پائے جاتے ہیں اور وقتاً فوقتاﹰ دونوں میں تکرار ہوتی رہی ہے۔ گزشتہ جون میں بھی اسی طرح کا ایک واقعہ پیش آیا تھا، جس کے بعد اطراف کے لوگوں کے درمیان پر تشدد مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔ تاہم گزشتہ پیر کے روز کا واقعہ دونوں ریاستوں کی پولیس کے درمیان خونریز جھڑپ کا پہلا واقعہ ہے۔ اس تصادم میں دونو ں جانب سے بڑے پیمانے پر توڑ پھوڑ بھی کی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں:بھارتی یوم جمہوریہ اور آئین کی روح پر بڑھتے حملے
سن 1972 سے پہلے تک میزورم ریاست آسام ہی کا حصہ تھا، جسے اس دور میں 'لوشائی ہلز‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ تاہم طویل جدوجہد کے بعد سن 1972 میں اسے ایک نئی اور علیحدہ ریاست کا درجہ دے دیا گیا اور تبھی سے دونوں میں سرحدی تنازعہ جاری ہے۔ سرحد کے تعین کے حوالے سے میزورم 1857ء کے ایک نوٹیفیکیشن کو بنیاد بنانا چاہتا ہے جبکہ آسام 1933 کے ایک نوٹیفیکیشن کو بنیاد بنانے پر اصرار کرتا ہے۔
مرکزی حکومت کی حیران کن خاموشی
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ حیرت کی بات ہے کہ اتنے اہم معاملے پر بھارت کی مرکزی قیادت خاموش ہے۔ حالانکہ بعض ذرائع کے مطابق وزیر داخلہ امیت شاہ نے دونوں وزرائے اعلیٰ سے مسئلے کو باہمی افہام و تفہیم کے ذریعے خیر سگالی کے ساتھ حل کرنے کی اپیل کی ہے، تاہم اس بارے میں نئی دہلی میں مودی حکومت کی طرف سے کوئی باضابطہ بیان اب تک سامنے نہیں آیا۔
یہ بھی پڑھیں:بھارت کی پانچ ریاستوں میں انتخابات
اس دوران مرکزی نیم فوجی دستے سی آر پی ایف کی پانچ کمپنیاں یعنی تقریباً پانچ سو جوان تعینات کیے گئے ہیں۔ یہ جوان آسام اور میزورم کی پولیس فورسز کے درمیان کھڑے ہیں۔