بھارت: غریبوں کی آمدن میں کمی لیکن امیروں کی دولت میں اضافہ
24 جنوری 2022اس رپورٹ کے مطابق سن 2015 اور سولہ کے پہلے دور کے مقابلے میں سال 2020 اور 21 کے دوران بیس فیصد غریب عوام کی آمدن میں تقریباﹰ 53 فیصد کی گراوٹ درج کی گئی ہے۔ بھارت میں نوے کے عشرے میں آزادانہ معاشی پالیسیوں کے نفاذ کے بعد سے ہر برس غریب طبقے کی آمدن میں اضافہ اور غربت میں کمی درج کی جاتی رہی ہے اور یہ پہلا موقع ہے کہ غربت میں اضافہ ہوا ہے۔
اس تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ برس کی مدت میں، بیس فیصد امیر ترین لوگوں کی آمدن میں 39 فیصد کا اضافہ بھی ہوا ہے۔ یہ رپورٹ بھارت میں امیر اور غریب طبقے کے درمیان معاشی سطح پر بڑھتے ہوئے فرق کو واضح کرتی ہے۔
رپورٹ میں کیا ہے؟
یہ تازہ سروے صنعتی شہر ممبئی کے ایک تھنک ٹینک ’پیپلز ریسرچ آن انڈياس کنزیومر ایکونومی‘ (پی آر آئی سی ای) نے کیا ہے۔ اس کے لیے اس نے پہلے دور میں 2021ء کے اپریل اور اکتوبر کے درمیان دو لاکھ گھروں کا جائزہ لیا اور پھر دوسرے مرحلے میں 42 ہزار مزید گھروں کا سروے کیا گيا۔ اس میں ملک کے 100 اضلاع کے 120 شہروں سمیت آٹھ سو دیہاتوں کا جائزہ شامل ہے۔
اس سروے کے مطابق کووڈ انیس کی وجہ سے سن 2020 اور اکیس کے دوران بھارت کی مجموعی گھریلو پیداوار میں سات اعشاریہ تین فیصد کی مجموعی گراوٹ درج کی گئی اور سب سے زیادہ شہروں میں بسنے والے غریب افراد متاثر ہوئے۔
اس کے مطابق ملک کے بیس فیصد غریب ترین افراد کی آمدن میں تقریبا 53 فیصد کی کمی آئی ہے جبکہ نچلے اوسط درجے کے طبقے کی آمدن میں بھی تقریبا 32 فیصد کی کمی آئی۔ اس کے برعکس متوسط درجے کے اعلیٰ بیس فیصد طبقے اور بیس فیصد امیر ترین لوگوں کی گھریلو آمدن میں بالترتیب سات اور 39 فیصد کا اضافہ دیکھا گيا۔
اس رپورٹ کے مطابق بھارت میں سن 2005 سے سن 2016، یعنی گیارہ برسوں کے دوران، غریبوں کی آمدن میں اوسطاً 183 فیصد کا اضافہ درج کیا گيا تھا اور اس کے مقابلے میں امیر ترین طبقے کی دولت میں اوسطاﹰ اضافہ 34 فیصد تک رہا تھا۔
سروے میں کہا گيا ہے کہ نوے کے عشرے میں جب لبرل اکنامک پالیسی کا نفاذ کیا گيا تھا تو اس کے بعد سے بھارت میں مسلسل غریب طبقے کی آمدن میں اضافہ ہوتا رہا ہے اور اس طرح غربت کا بھی خاتمہ ہوتا رہا، تاہم کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے پہلی بار غربت میں اضافہ ہوا ہے۔
معاشی بحران کی وجوہات کیا ہیں؟
معاشی امور کے ماہر پروفیسر امیراللہ خان کا کہنا ہے کہ یہ تاثر کہ بھارت میں معاشی بحران کووڈ کی وجہ سے ہے، درست نہیں بلکہ اس کی ابتدا سن 2016 میں ہی ہو گئی تھی۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت میں انہوں نے بتایا کہ بھارتی معیشت کے زوال کی ابتدا بھارتی کرنسی پر پابندی (نوٹ بندی) سے شروع ہوئی تھی اور پھر بھارت نے جی ایس ٹی کے تحت جو نیا ٹیکس نظام نافذ کیا اس نے مزید اثر ڈالا اور پھر جو باقی بچا بھی تھا، ’’اسے کورونا کی صورت حال نے تباہ کر دیا۔‘‘
ان کا کہنا تھا، ’’جب بھی کسی ملک کی معیشت خراب ہوتی ہے تو اس سے سب سے پہلے جو طبقہ متاثر ہوتا ہے وہ غریبوں کا ہے اور ان تینوں وجوہات کا بھی زیادہ اثر بھارت کے غریبوں پر ہی پڑا ہے۔ حکومت نے بھی اس سے بچنے کے لیے کوئی احتیاطی تدابیر نہیں کیں۔ جیسے کہ وہ امیر ترین طبقے یا کمپنیوں پر اضافی ٹیکس سے غریبوں کی مشکلات کم کر سکتی تھی، تاہم اس نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا۔‘‘
پروفیسر امیر اللہ خان نے بتایا کہ جب بھی کورونا جیسی ملک میں کوئی قدرتی آفت آتی ہے تو حکومتیں غریبوں پر پڑنے والے معاشی دباؤ کو کم کرنے کے لیے اقدامات کرتی ہیں۔’’بیشتر ملکوں نے ایسا کیا بھی، یعنی بے روز گاری بھتہ کی صورت میں یا پھر دیگر ذرائع سے غریب عوام کو رقوم فراہم کی گئی ہیں، تاہم بھارت میں ایسا کوئی نظام ہی نہیں ہے۔‘‘
انہوں بتایا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ جب گزشتہ تقریباﹰ پچیس برسوں کے دوران آمدن میں کمی کے سبب بھارت میں غربت میں اضافہ ہوا ہے۔ ان کے مطابق کووڈ کے دور میں جہاں ایک طرف مہنگائی میں زبردست اضافہ ہوا وہیں بھارت میں غریب طبقے کو معاشی بدحالی سے بچانے کے لیے کوئی نظام نہیں ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ آنے والے دن مزید خراب ہو سکتے ہیں۔
انہوں مزید کہا کہ اس کے برعکس امیر ترین طبقے کی دولت میں اس لیے اضافہ ہوتا ہے کیونکہ اس طرح کی ہنگامی صورت حال میں عوام پریشان ہوتی ہے اور وہ اپنی بقا کے لیے پیسے خرج کرتی ہے جس سے سرمایہ دار فائدہ اٹھاتے ہیں۔