بھارت میں قدیمی مسجد سے متعلق سروے کے باعث فساد، دو ہلاکتیں
24 نومبر 2024اتر پردیش میں لکھنؤ سے 24 نومبر اتوار کے روز ملنے والی رپورٹوں کے مطابق بھارت میں ملکی سطح پر مذہبی اقلیت کی حیثیت رکھنے والے مسلمان مظاہرین کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں اس وقت شروع ہوئیں، جب یہ سروے کیا جا رہا تھا کہ آیا اسی ریاست میں موجود اور 17 ویں صدی میں تعمیر کردہ مسلمانوں کی ایک مسجد کی جگہ پر پہلے ہندوؤں کا ایک مندر تھا۔
پولیس کے ساتھ ہلاکت خیز جھڑپیں
شمالی بھارتی ریاست اتر پردیش میں سنبھل نامی تاریخی علاقے کے مقامی پولیس افسر پون کمار نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ''مظاہرین کی پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں کم از کم دو افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے۔‘‘
گیان واپی مسجد کے تہہ خانے میں پوجا روکنے کی درخواست مسترد
ساتھ ہی اس پولیس افسر نے یہ بھی کہا کہ ان فسادات میں 16 پولیس اہلکار بھی ''شدید زخمی‘‘ ہو گئے۔
کیا ایودھیا میں نئی مسجد بن بھی سکے گی؟
اس کے برعکس بھارتی نیوز ایجنسی پی ٹی آئی نے مقامی حکام اور پولیس کے اعلیٰ افسران کا حوالہ دیتے ہوئے ہلاک شدگان کی تعداد تین بتائی ہے۔
بھارت میں قوم پسند اور کٹر مذہبی سوچ کے حامل کئی ہندو گروپوں کی طرف سے متعدد مساجد کے بارے میں ایسے دعوے کیے جا چکے ہیں کہ وہ صدیوں پہلے مغل مسلم حکمرانوں کے دور میں مبینہ طور پر ہندوؤں کے مندروں کی جگہوں پر تعمیر کی گئی تھیں۔
سنبھل کی شاہی جامعہ مسجد
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ سنبھل میں یہ بدامنی اس وقت شروع ہوئی جب ایک مقامی عدالت کی طرف سے جاری کردہ حکم کے بعد سرکاری اہلکاروں کی ایک سروے ٹیم آج اس لیے اس مسجد میں داخل ہوئی کہ یہ طے کر سکے کہ آیا سنبھل کی شاہی جامعہ مسجد کی جگہ پر پہلے ہندوؤں کا ایک مندر تھا۔
سنبھل میں اسی جگہ پر 17 ویں صدی میں شاہی جامعہ مسجد کی تعمیر سے قبل ایک مندر تھا، یہ دعویٰ ایک ہندو پنڈت نے کیا تھا اور ایک مقامی عدالت نے مسجد کا سروے کیے جانے کا حکم بھی اسی پنڈت کی طرف سے دائر کردہ درخواست پر جاری کیا تھا۔
بھارتی سپریم کورٹ نے شاہی عید گاہ مسجد کا سروے روک دیا
لیکن جیسے ہی سروے ٹیم مسجد میں داخل ہوئی، مقامی مسلمان مظاہرین نے اپنا احتجاج شروع کر دیا، جس کے بعد ان کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں شروع ہو گئیں۔
اس بدامنی کے دوران مظاہرین نے موقع پر موجود پولیس پر پتھراؤ کیا، جس کے جواب میں پولیس نے مشتعل مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے شیل بھی فائر کیے۔
ایودھیا کے قریب ہی ایک اور قدیم مسجد مسمار کر دی گئی
پس منظر میں بابری مسجد اور رام مندر کا تنازعہ
بھارت میں بہت سے ہندو قوم پرست کارکنوں کے حوصلے اسی سال اس وقت کافی بلند ہو گئے تھے، جب وزیر اعظم نریندر مودی نے شمالی شہر ایودھیہ میں ایک نئے اور بہت بڑے رام مندر کا افتتاح کیا تھا۔ یہ مندر اسی جگہ پر تعمیر کیا گیا ہے، جہاں ماضی میں صدیوں تک تاریخی بابری مسجد موجود تھی۔
یہ مسجد 1992ء میں ایک ایسی مہم کے دوران مشتعل ہندوؤں نے منہدم کر دی تھی، جس میں ہندو قوم پسند وزیر اعظم نریندر مودی کی اپنی پارٹی کے کارکن پیش پیش تھے۔
رام مندر کا افتتاح: بھارتی مسلمان کیا سوچتے ہیں؟
بابری مسجد کے انہدام کے ساتھ ہی بھارت بھر میں ایسے مذہبی فسادات شروع ہو گئے تھے، جن میں تقریباﹰ دو ہزار افراد مارے گئے تھے۔ مرنے والوں میں اکثریت بھارت کے مسلمان شہریوں کی تھی۔
م م / ش ر (اے ایف پی)