بھارت نے چینی کمپنیوں کو فائیو جی ٹرائل سے آخر روکا کیوں؟
6 مئی 2021بھارت کے محکمہ مواصلات نے پانچ مئی کو کئی بھارتی کمپنیوں کو اس شرط کے ساتھ فائیو جی نیٹ ورک کے تجربات کی اجازت دی ہے کہ کوئی بھی کمپنی اس کے لیے چین کی کسی کمپنی کی ٹیکنالوجی کا استعمال نہیں کرے گی۔
بھارت نے چینی کمپنی ہواوے اور 'زیڈ ٹی ای' کو بھی اس تجربے میں شامل ہونے کی اجازت نہیں دی، جس پر چین نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے جبکہ امریکا نے بھارت کے اس فیصلے کو ''بھارتی عوام اور دنیا کے لیے اچھی خبر قرار دیا ہے۔‘‘
چینی کمپنیوں کو بھارت میں 5 جی تجربات کی اجازت نہ دینے پر چین نے اپنے سخت رد عمل میں کہا کہ اسے اس بات پر افسوس اور تشویش ہے کہ آخر چینی کمپنیوں کے ساتھ یہ امتیازی سلوک کیوں کیا گیا۔
نئی دہلی میں چینی سفیر وانگ زیاؤجیانگ نے کہا،''متعلقہ کمپنیاں تو بھارت میں برسوں سے آپریٹ کر رہی تھیں جن سے بڑے پیمانے پر روزگار کے مواقع بھی پیدا ہو رہے تھے اور محکمہ مواصلات میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کا کام بھی ہو رہا تھا۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ چینی کمپنیوں کو علحیدہ رکھنے سے نہ صرف ان کے قانونی حق کی خلاف ورزی ہوتی ہے بلکہ اس سے بھارتی کاروباری ماحول کی بہتری میں بھی رکاوٹ پیدا ہوتی ہے، جو متعلقہ بھارتی صنعتوں کی جدت اور ترقی کے لیے موزوں نہیں ہے۔
چینی سفارت کار کا کہنا تھا کہ انہیں امید ہے کہ بھارت دونوں ممالک کے مابین باہمی اعتماد اور تعاون کو بڑھانے کے لیے چین سمیت تمام ممالک کے کاروباری اداروں کے لیے ایک آزاد، منصفانہ اور غیر متعصبانہ سرمایہ کاری اور کاروباری ماحول مہیا کرنے کے لیے مزید اقدامات کرے گا۔
اس کے برعکس امریکا نے بھارت کے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس کی تعریف کی۔ امریکا میں چینی ٹاسک فورس اور خارجی أمور کی پارلیمانی کمیٹی میں شامل ریپبلکن رہنما مائیکل مکیل نے کہا کہ کسی بھی چینی کمپنی کے لیے لازم ہے کہ اسے کمیونسٹ پارٹی کے لیے بھی کام کرنا ہو گا اس لیے بھارت کا فیصلہ درست ہے۔
ان کا کہنا تھا،''یہ ایک بڑا خطرہ ہے، جس کو اس وقت تک کم نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ یہ کمپنیاں ہمارے نیٹ ورکس سے باہر نہ ہو جائیں اور مجھے خوشی ہے کہ بھارت نے اس خطرے کو تسلیم کر لیا ہے۔ بھارت نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ چینی کمیونسٹ پارٹی کے زیر کنٹرول ٹیکنالوجی سے جن سکیورٹی خطرات کا اندیشہ ہے ان کے خلاف جنگ میں وہ عالمی رہنما کیوں ہے۔‘‘
مودی حکومت نے یہ فیصلہ ایک ایسے وقت کیا ہے، جب لداخ میں لائن آف کنٹرول پر بھارتی اور چینی فوجیں گزشتہ تقریبا ایک برس سے آمنے سامنے ہیں۔ سرحدی تنازعے کے حوالے سے دونوں کے درمیان کشیدگی پائی جاتی ہے اور بھارت چین کے ساتھ تجارتی روابط معمول کے مطابق لانے سے پہلے اس کشدیگی میں کمی کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔
گزشتہ برس مئی میں سرحد پر کشدیگی کے بعد سے ہی بھارت چین کی تقریبا ڈھائی سو کمپنیوں پر پابندی عائد کر چکا ہے اور بھارت میں چینی سرمایہ کاری کو بھی تقریبا نہ کے برابر کر دیا ہے۔
بھارتی وزیر خارجہ بھی کئی بار یہ بات کہہ چکے ہیں کہ جب تک سرحدی کشیدگی حتم نہیں ہوتی اس وقت چین کے ساتھ پہلے جیسے تجارتی روابط اور تعلقات بہت مشکل ہیں۔
بھارت اور چین میں شمالی مشرقی علاقے سکم سے لیکر مشرقی لداخ تک تقریباً تین ہزار کلو میٹر کی سرحد مشترک ہے۔ بیشتر علاقے میں لائن آف ایکچوؤل کنٹرول قائم ہے اور دونوں کے درمیان دیرینہ سرحدی تنازعہ ہے۔ ایل اے سی پر تنازعے کی وجہ سے ہی دونوں کے درمیان گزشتہ تقریبا آٹھ ماہ سے مشرقی لداخ میں کشیدگی کا ماحول رہا ہے۔
بھارت اور چین کے درمیان مشرقی لداخ میں ایل اے سی پر تنازعہ کی ابتدا گزشتہ برس مئی میں ہوئی تھی اور جون کے وسط میں وادی گلوان میں دونوں فوجیوں کے درمیان ہونے والے ایک تصادم میں بھارت کے 20 فوجی ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔
فریقین میں بات چیت کے بعدبعض علاقوں سے فوجیں پیچھے ہٹی ہیں تاہم ماہرین کے مطابق اب بھی کئی علاقوں میں رہ صرف تنازعہ برقرار ہے بلکہ کشیدگی بھی پائی جاتی ہے۔