بھارت: پہلی مرتبہ خواتین کی تعداد مردوں سے زیادہ
25 نومبر 2021بھارتی حکومت کی جانب سے 'نیشنل فیملی اینڈ ہیلتھ سروے(این ایف ایچ ایس)' کے پانچویں دور کی رپورٹ جاری کی گئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق بھارت میں پہلی مرتبہ خواتین کی تعداد مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہوگئی ہے۔ سروے کے مطابق ہر ایک ہزار مرد پر خواتین کی تعداد 1020 ہے۔
بھارت میں مردوں کے مقابلے خواتین کی زیادہ تعداد اس لحاظ سے بھی اہمیت کی حامل ہے کہ یہاں کے سماجی اور اقتصادی پس منظر میں لڑکوں کو لڑکیوں پر فوقیت دی جاتی ہے۔ لڑکیوں کو"پرایا دھن"اور لڑکوں کو"بڑھاپے کی لاٹھی"سمجھا جاتا ہے۔
اہم کامیابی
نئے اعدادوشمار سماجی رجحان میں تبدیلی کی عکاسی کرتے ہیں۔ سن 2005 میں کرائے گئے سروے میں مرد اور خواتین کا تناسب برابر تھا یعنی فی ایک ہزار مرد پر ایک ہزار خواتین تھیں۔ تاہم سن 2015 کے سروے کے مطابق خواتین کی تعداد میں کمی آ گئی اور فی ایک ہزار مردوں پر خواتین کا تناسب 991 ہوگیا۔ سن 1990میں جب نوبل انعام یافتہ ماہر اقتصادیات امرتیہ سین نے ''مسنگ ویمن'' کی اصطلاح وضع کی تھی اس وقت بھارت میں فی ایک ہزار مردوں پر خواتین کا تناسب 927 تھا۔ یہ پہلا موقع ہے جب صنفی تناسب خواتین کے حق میں بڑھ گیا ہے۔
یہ اعدادو شمارسیمپل سروے یا نمونے کی بنیاد پر حاصل کیے گئے ہیں اور ان کی تصدیق آئندہ قومی مردم شماری کے بعد ہی ہوسکے گی تاہم 14اہم ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں کرائے گئے اس سروے کی بنیاد پر توقع کی جارہی ہے کہ بیشتر ریاستوں میں خواتین اور مردوں کا تناسب یہی رہے گا۔
بھارتی وزارت صحت اور خاندانی بہبود میں ایڈیشنل سکریٹری وکاس شیل کا کہنا تھا،"بہتر صنفی تناسب ایک انتہائی اہم کامیابی ہے۔ گوکہ حقیقی تصویر مردم شماری کے بعد ہی سامنے آئے گی، لیکن ہم ان اعدادو شمار کی بنیاد پر کہہ سکتے ہیں کہ خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے کیے جانے والے اقدامات صحیح سمت میں جارہے ہیں۔''"
بھارت میں حمل کے دوران جنین کے جنس کی شناخت بتانا قانوناً ممنوع ہے۔ ایسا کرنے والے ڈاکٹروں یا دیگر طبی عملے کو سزا بھی سنائی جاسکتی ہے۔ لیکن بیٹے کی چاہت والے بھارتی سماج میں حمل کے دوران جنس کی شناخت کا غیر قانونی کاروبار پوری طرح بند نہیں ہوسکا ہے۔ بیٹے کے بجائے بیٹی کی شناخت ہونے پر حمل ضائع کرا دیے جانے کے واقعات اب بھی رپورٹ ہوتے ہیں۔
اب آبادی کے انفجار کا خطرہ نہیں
نیشنل فیملی اینڈ ہیلتھ سروے کی اس تازہ ترین رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ بھارت میں مجموعی بارآوری شرح(ٹی ایف آر) یعنی فی خواتین بچوں کی اوسط تعداد اب صرف دو رہ گئی ہے۔ جو کہ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ ٹی ایف آر 2.1 سے بھی کم ہے۔ ٹی ایف آر وہ پوائنٹ ہے جہاں آبادی خود کو ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل کرتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بھارت کی آبادی اپنے عروج کو پہنچ چکی ہے۔ بہر حال اس کی تصدیق بھی مردم شماری کے نئے اعدادوشمار کے بعد ہی ہوسکے گی۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اس شرح میں بالخصوص ملک کے جنوبی ریاستوں نیز دولت مند ریاستوں میں کوئی خاص فرق کی امید نہیں ہے۔
انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، دہلی میں سینئر ریسرچ فیلو پورنیما مینن کہتی ہیں کہ بارآوری میں گراوٹ ایک اچھی خبر ہے۔ یہ زچہ اور بچہ دونو ں کے لیے اچھی بات ہے۔ تاہم اترپردیش، بہار اور جھارکھنڈ جیسی زیادہ بارآوری والی ریاستوں میں ابھی مزید کمی لانے کی ضرورت ہے۔ " ان ریاستوں کی صورت حال کو بہتر بنانا اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ ملک گیر سطح کے نتائج متاثر نہ ہونے پائیں۔''
کم بچے پیدا کرنے کا بوجھ بھی خواتین پر
بھارت میں موجودہ اور سابقہ حکومتیں آبادی میں اضافے کے ممکنہ مضمرات کو اپنی پالیسیوں کا حصہ بناتی رہی ہیں۔ بعض سیاسی جماعتوں نے اسے انتخابی موضوع بھی بنایا ہے۔ وہ دو بچہ پالیسی پر زور دیتی ہیں۔ کئی ریاستوں میں دو سے زیادہ بچوں والے والدین پر بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی ہے۔
آزادی کے بعد سے گزشتہ 74برسوں کے دوران آبادی پر کنٹرول یا دو بچہ پالیسی کے لیے پارلیمان میں 30 سے زائد پرائیوٹ ممبر بل پیش کیے جا چکے ہیں۔ جن میں دو بچوں والے کنبے کو کئی طرح کے مراعات اور دو سے زیادہ بچوں والی فیملی کومراعات سے محروم مثلاً عوامی نظام تقسیم سے محروم، مکانات کے لیے بینک سے قرض پر زیادہ شرح سود، بینکوں میں جمع رقم پر کم شرح سود جیسی تجاویز شامل ہیں۔
خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں کا تاہم کہنا ہے کہ دو بچہ پالیسی قانون خواتین مخالف ہے کیونکہ اس سے خواتین کے جمہوری اور بارآوری دونوں ہی حقوق بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔